پاکستان تحریک انصاف کا رہنما جس نے اپنی بیوی کو ننگا کر کے بندوق سے پیٹا


جب ہم گھر لوٹے تو میں نے مصطفےٰ کو ٹیلی فون پر ہونے والی اس بات چیت کے بارے میں بتایا جو میرے سننے میں آئی تھی اور یہ بھی کہ کس طرح میں نے اس پر حرف نہ آنے دیا تھا۔ وہ مجھے گھورنے لگا۔ اس کے بعد اس پر سراسر جنون طاری ہوگیا۔ اسے اپنے حواس پر قابو نہ رہا۔ وہ دیوانوں کی سی حرکتیں کرنے لگا۔ اس نے اپنی دونالی بندوق اٹھا کر اس کے کندے سے مجھے مارنا شروع کردیا۔ میں گر پڑی، اٹھ کھڑی ہوئی، اُس نے پے پے در پے مجھ پر ضربیں لگائیں۔ میرے سر میں زخم آگیا۔ جب خون بہنے لگا تو اس نے ہاتھ روکا۔ غصے سے کانپتے ہوئے اس نے کہا ”ابھی اس لمحے اپنی امی کو فون کرو۔ انہیں بتاﺅ کہ تم پاگل ہو۔ انہیں بتاﺅ کہ یہ ساری باتیں تم نے دل سے گھڑی ہیں۔ فون اٹھاﺅ۔ “وہ دہاڑا۔

”میں۔۔۔ میں یہ نہیں کر سکتی۔ انہیں میری بات کا ہر گز یقین نہ آئے گا۔ میں اپنا بیان کیسے بدلوں۔ انہیں شبہ ہوجائے گا کہ۔۔۔ “وہ پھر مجھے مارنے لگا۔ ”کھڑی ہوجاﺅ کتیا کہیں کی۔“ میں بڑی مشکل سے اٹھی۔ ”اپنے کپڑے اتار۔ ایک تار بھی بدن پر نہ رہے۔ اتار کپڑے۔ “ میں کانپنے لگی۔ اس نے میری بانہہ اس طرح مروڑی جیسے بانہہ نہ ہو پیچ کس ہو۔ وہ بیٹھا مجھے کپڑے اتارتے دیکھتا رہا۔ اب میں بالکل ننگ دھڑنگ لونگ روم کے بیچوں بیچ کھڑی تھی۔ میرے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔ اس سے بڑی تذلیل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دائی اور بلال کمرے کے باہر میری دونوں بچیوں کے ساتھ کھڑے تھے۔

مصطفےٰ نے میرا جائزہ لیا۔ سر سے پاﺅں تک نظر ڈالی۔ وہ مجھے ننگا کر کے میرے ذہن میں زبردستی داخل ہونا چاہتا تھا۔ میں خود کو بے بس اور تنہا محسوس کر رہی تھی۔ مجھ پر مکمل مایوسی کاعالم تھا۔ میں جس ذلت میں گرفتار تھی اس کی وجہ سے میرا یہ احساس دو چند ہوگیا تھا کہ میں باقی دنیا سے کٹ چکی ہوں۔ میں خود کو ڈھانپنا چاہتی تھی۔ اس آدمی کے سامنے جس کی زبان شرم اور حیا کی فضیلت کا پرچار کرتے نہ تھکتی تھی” فون اٹھاﺅ۔ اپنی امی سے بات کرو۔ پھر ہم دیکھیں گے “

” میں کپڑے پہنے بغیر فون نہیں کر سکتی“ اس نے مجھے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ میرے پورے خاندان کو بان کر رکھ دیا۔ میرے حواس اردگرد پھیلے ہوئے ماحول میں گم ہوگئے۔ میں جدھر ہاتھ پھیلاتی کچھ ہاتھ نہ آتا۔ میں بڑی مشکل سے کھڑی تھی۔ میرے گھٹنے آپس میں ٹکرا رہے تھے اور میرے ہاتھ اور بانہیں مجھے ڈھانپنے کے لیے کافی نہ تھیں۔ میں چاہتی تھی مجھے کوئی سہارا مل جائے۔ کسی بھی چیز کا سہارا، جسے تھام کر کھڑی رہوں۔ میں نے گھٹنوں کے بل جھکنے کی کوشش کی۔ مصطفے نے مجھے یہ بھی نہ کرنے دیا۔ میں اپنی جگہ سے ہلتی تو وہ چنگھاڑ کر اچھل کھڑا ہوتا۔ میں اللہ کے حضور میں دعا کرتی رہی، گڑگڑاتی رہی۔ بالآخر میں ڈھے گئی۔ میں نے سوچنے کی کوشش بھی ترک کردی” ٹھیک ہے، میں فون کیے دیتے ہوں۔ مہربانی کر کے مجھے کچھ پہننے تو دو۔“ میں نے اس حالت میں کپڑے پہنے کہ میرا جسم وجان ابھی تک شرم کے احساس سے تپ رہا تھا۔ میں نے فون کیا۔ میری باتوں میں ربط نہ تھا۔ کچھ کا کچھ کہہ گئی۔ امی کو بتانا تو یہ تھا کہ جو کچھ میں نے کہا تھا سب جھوٹ تھا لیکن کہہ یہ دیا کہ سب سچ تھا۔ درحقیقت اس وقت میرے لیے غلط اور صحیح کی تمیز مٹ چکی تھی۔

مصطفےٰ نے میرے ہاتھ سے فون چھین لیا۔ اسے بند کرنے کے بعد مجھے شدت سے پیٹنے لگا۔ میں نے کہا کہ ”مجھے معاف کردو۔ میں دوبارہ فون کرتی ہوں۔ “ میں نے امی سے وہی کہہ دی جو وہ مجھ سے کہلوانا چاہتا تھا۔ میں رو رہی تھی۔ مصطفےٰ من مانی کرنے کے لیے آزاد تھا۔ اس کی خوشی کا اوچھاپن چھپائے نہ چھپتا تھا۔ وہ خوش تھا کہ اس نے تہمینہ درانی کی آبرو خاک میں ملا دی ہے۔ اس کے چہرے سے خباثت عیاں تھی۔ مجھے اس کے خدوخال اب زیادہ واضح طور پر یاد آجاتے ہیں۔ حالانکہ اتنی مدت گزر چکی ہے۔ اس وقت تو وہ مجھے دھندلا دھندلا دکھائی دے رہا تھا۔ محض ایسی شے تھا جس سے، میں جانتی تھی، مجھے ڈرنا چاہیے۔ اور جس کا حکم کسی معقول وجہ کے بغیر بجا لانا پڑے گا۔ “

تہمینہ درانی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مصطفےٰ کی اقدار اور ظاہری امیج محض منافقانہ لبادہ تھی۔ یہ تھا وہ شخص جو ہمیشہ ارفع و اعلیٰ الفاظ میں عورت کی حرمت کا ذکر کرتا رہتا تھا۔ اگر میں غسل خانے میں سے کسی ملازم کی بات کا جواب دے دیتی تو اسے پریشانی لاحق ہوجاتی تھی، جو مجھے یہ تعلیم دیتا رہتا تھا کہ میرا طرز عمل کیا ہونا چاہیے اور اٹھتے بیٹھنے کے آداب کیا ہونے چاہئیں۔ جس کا یہ عقیدہ تھا کہ عورت اگر مردانہ محفل میں بیٹھے تو اس کا جسم اچھی طرح ڈھکا ہونا چاہیے اور اسے نظریں نیچی رکھنی چاہئیں۔ یہ شخص رنگا سیار تھا۔ اس نے اپنی ہی بیوی کو جو اس کی بچیوں کی ماں بھی تھی، بے ستر ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ اور اب مزے سے بیٹھا اس بارے میں بات چیت کر رہا تھا۔ کہ میرا ذہنی توازن درست ہے یا بگڑ چکا ہے۔

لوگ مصطفےٰ سے بہت بچ کے رہتے تھے۔ یہ مشہور ہوچکا تھا کہ وہ عورتوں کا بڑا رسیا ہے اور اس معاملے میں اسے کسی قسم کا اخلاقی پس و پیش نہیں۔ وہ جہاں بھی جاتا، اس کی عورت بازی کا ڈھنڈورا وہاں پہلے ہوچکا ہوتا۔ میں نے اس کے حق میں کلمہ خیر کہہ کر اس کی شہرت کا انداز بدلا۔ میری خواہش تھی کہ ہر کوئی اس پر اعتبار کرے، اس پر تکیہ کرے۔ میں نے PUBLIC RELATIONING کا بڑا زبردست کارنامہ انجام دیا تھا۔ لیکن میں جھوٹ بولتی رہی تھی۔ ستم ظریفی یہ کہ خود مجھے معلوم نہ تھا کہ مصطفےٰ کی ہوس اگر ایک دفعہ بیدارہوجائے تو پھر کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ میرا اپنا گھر خود میری سگی بہنوں کے لیے محفوظ نہ تھا۔

(اقتباس: مینڈھا سائیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2