جیپ کا نشان: آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ جیپ کون چلائے گا؟


پاکستان

پاکستان میں الیکشن کی آمد آمد ہے اور ملک کی دو مقبول ترین جماعتیں، پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی نشانات کا چرچا تو ہر جانب ہے اور ان کے سیاسی نعرے بھی انھی نشانات کے گرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔

کہیں مریم نواز ‘شیر’ کی ٹویٹ کرتی ہیں تو کہیں پی ٹی آئی کے حمایتی ‘ٹھپہ صرف بلے کا’ کے نعرے بلند کرتے ہیں تاکہ وہ ووٹروں کو قائل کر سکیں کہ 25 جولائی کو ان کے انتخابی نشانات پر ٹھپہ لگائیں۔

اسی حوالے سے جب ملک کے سابق وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے تاحیات قائد نواز شریف کے 34 برس تک قریبی رفیق چوہدی نثار علی خان نے الیکشن کے لیے اپنی جماعت کا ساتھ دینے سے انکار کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لینے کا اعلان کیا تو اس کے لیے انھیں الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے ‘جیپ’ کا نشان الاٹ کیا گیا۔

لیکن غور طلب بات یہ تھی کہ چوہدری نثار علی خان اس نشان کو حاصل کرنے والے اکیلے شخص نہیں تھے۔

30 جون کو الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی امیدواروں کی نامزدگی کی آخری تاریخ آئی تو جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے نواز لیگ کے کم از کم چھ مزید امیدواروں نے بھی جماعت کی جانب سے دی گئی ٹکٹیں واپس کر دیں اور آزادانہ طور پر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا۔

ان تمام امیدواروں کے درمیان قدرِ مشترک: انتخابی نشان ‘جیپ’۔

ملک کے سابق وزیر داخلہ کے علاوہ ‘جیپ’ کا نشان پاکستان مسلم لیگ کے سابق رہنما زعیم قادری کو بھی لاہور میں قومی اسمبلی کی نشست 125 سے الاٹ کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ چند روز قبل زعیم قادری نے پارٹی کے رہنماؤں سے اختلافات کے بعد علیحدگی کا فیصلہ اختیار کرتے ہوئے لاہور کے حلقے این اے 125، 133 اور 134 سے آزادانہ طور پر انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تھا۔

‘جیپ’ کی اچانک پھیلنے والی مقبولیت کے بعد مختلف حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں اور ان میں سب سے واضح آواز مسلم لیگ نواز کے تاحیات قائد، اور تین دفعہ کے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی تھی جو اس وقت اپنی بیمار اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن میں موجود ہیں۔

سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے نواز شریف الیکشن سے پہلے کی جانے والی ‘دھاندلی’ کی شکایت کرتے ہیں اور اپنی جماعت کے امیدواروں کو ہراساں کیے جانے اور عدلیہ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کی تنقید کرتے ہیں۔

‘ہمارے کئی اور امیدوار ہیں جن کی وفاداریاں تبدیل کرائیں گئیں اور بہت سے لوگوں کو پی ایم ایل این چھوڑ کی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا یا ان کو جیپ کے نشان پر لڑنے کے لیے کہا گیا۔ اب یہ جیپ کس کا نشان ہے، یہ آب خود جانتے ہوں گے۔’

نواز شریف کی تنقید کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی کئی مبصرین اور صارفین نے ‘جیپ’ کی مقبولیت پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

ایک صارف باسط نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ‘نواز لیگ کے وہ امیدوار جنھوں نے اپنی ٹکٹ واپس کی ہیں، ان تمام نے انتخابی نشان جیپ کے لیے درخواست کی ہے۔ #اتفاق’

https://twitter.com/iBasitt/status/1013138796567810048

ٹی وی اینکر ندیم ملک میں اپنی ٹویٹ میں سوال اٹھایا کہ نواز لیگ کے کتنے امیدوار جیپ کے نشان سے لڑیں گے؟

ایک اور صارف ڈاکٹر مہر علی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ‘تمام محب وطن آزاد امیدواروں کو جیپ کا نشان الاٹ کر دیا گیا ہے’ اور ساتھ میں ایک فوجی جیپ کی تصویر بھی لگائی۔

صارف صلاح الدین یوسفزئی لکھتے ہیں کہ ‘پنجاب سے تقریباً تمام آزاد امیدواروں کو جیپ کا انتخابی نشان الاٹ کر دیا گیا ہے اور آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ جیپ کون چلائے گا۔جی ہاں، چوہدری نثار۔’

https://twitter.com/Salahuddintg/status/1013155257164161024

ان شکوک اور قیاس آرائیوں کے حوالے سے ٹی وی اینکر طلعت حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود راجن پور میں موجود ہیں جہاں سے نواز لیگ کے شیر علی گورچانی اور دیگر نے پارٹی ٹکٹ واپس کر دیے ہیں اور اب جیپ کے نشان پر لڑ رہے ہیں۔

‘یہ نہایت حیران کن فیصلہ ہے جس کی کوئی سیاسی وضاحت یا منطق نہیں نظر آتی۔ مقامی طور پر میں نے معلوم کیا تو وہ امیدوار جو ایک رات قبل تک جماعت کے حق میں انتخابی مہم چلا رہے تھے اور نعرے لگوا رہے تھے، صرف تین گھنٹے بعد انھوں نے اپنی حمایت کا رخ تبدیل کر دیا۔’ اس بارے میں مزید تبصرہ کرتے ہوئے طلعت حسین نے کہا کہ خیال یہ ظاہر کیا جا رہا کہ ان تبدیلیوں کے پیچھے چوہدری نثار کا ہاتھ ہے۔

‘آپ یہ دیکھیں کہ اتنے اہم امیدواروں کا آخری دن پارٹی چھوڑ جانے کا فیصلہ ہو لیکن پارٹی کے صدر شہباز شریف کی جانب سے کوئی فون کال نہ آئے حالانکہ ان کا اس علاقے میں کچھ اثر و رسوخ ہے اور وہ یہاں پر مقبول بھی ہیں۔’ نواز لیگ کا ساتھ چھوڑنے والوں میں جنوبی پنجاب سے ہی چند اور بھی امیدوار ہیں لیکن ان کو ’جیپ‘ کے بجائے ’بالٹی‘ اور ’موبائل فون‘ کا انتخابی نشان الاٹ ہوا ہے۔ البتہ سینئیر سیاسی تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا کہ ان کی نظر میں آزاد امیدواروں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے اور انتخابی نتائج میں ان کا کردار سرسری ہی رہے گا۔

‘پاکستان میں یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا ہے کہ آزاد امیدواروں کو اس طرح جمع کیا گیا ہو اور ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ آزاد امیدواروں میں سے جن کی جیت ہوگی وہ حکومت بنانے والی جماعت کے ساتھ ہی جائیں گے۔ لیکن چند ایک مقامات کے علاوہ پاکستان میں لوگ ابھی بھی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں، نہ کہ آزاد امیدواروں کو۔ یہ سب شور شرابہ زیادہ ہے۔’

امیدوار کا نام امیدوار کا حلقہ
چوہدری نثار علی خان این اے 59، این اے 63، پی پی 10، پی پی 12
زعیم قادری این اے 125
شیر علی گورچانی این اے 193، پی پی 293
پرویز گورچانی پی پی 295
اطہر گورچانی پی پی 294
یوسف خان دریشک پی پی 296
ڈاکٹر حفیظ دریشک این اے 194
سلطان محمود ہانجرا این اے 181
’جیپ‘ کا انتخابی نشان حاصل کرنے والے وہ آزاد امیدوار جو ماضی میں پاکستان مسلم لیگ نواز کا حصہ رہے تھے

دوسری جانب پنجاب کے سیاسی منظرنامے پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آزاد امیدوار ہوا کے رخ پر چلتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان کے ساتھ ملیں جو طاقت میں ہو۔ ‘میرا نہیں خیال کہ جنوبی پنجاب کے یہ سیاستدان چوہدری نثار کے ساتھ کسی حکمت عملی کے ساتھ گئے ہیں کیونکہ ان کا دائرہ اثر وسطی یا شمالی پنجاب میں زیادہ ہے۔ وہ تو صرف اپنے لیے راستے کھلے رکھنے چاہتے ہیں۔’

سہیل وڑائچ نے نصرت جاوید کے نکتے کی تائید کرتے ہوئے مزید کہا کہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ بتاتی ہے کہ صوبے میں اکثریت ووٹ جماعتی بنیادوں پر پڑتا ہے اور اس حساب سے زیادہ سے زیادہ آٹھ سے دس آزاد امیدواروں کی جیت متوقع ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp