ماؤں کو بیٹے سے کیسا سلوک کرنا چاہیے؟


کوئی بھی نوکری کرنا، کیسی بھی ذمہ داری نبھانا، اور ہر طرح کے فرض کی بجا آوری آسان، لیکن بیٹوں کی ماں ہونا دنیا کا سب سے مشکل اور اعصاب شکن منصب ہے۔ اور اگر بیٹی نہ ہو تب بھی چوڑیوں، مہندی لگے ہاتھوں، گھیر دار فراک کے بنا کوئی تہوار یا خوشی کا موقع کیسا بے رنگ ہے، بیٹوں کی ماں کو کب اتنی فرصت کہ بیٹھ کر یہ سوچے۔ بیٹیوں کا وجود ایک سرخوشی تو بیٹوں کا وجود تحفظ کا احساس دیتا ہے۔ یہ تحفظ مال، جان، خوشی اور مستقبل سے جڑا ہوتا ہے۔ شوہر کے ظلم برداشت کرنا ہو یا اس سے پیچھا چھڑا نا ہو، بیٹوں کے وجود کا احساس ہی اس کے اندر پہاڑوں کا سا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ وہ ہر قسم کے حالات کا بے جگری سے مقابلہ کرتی ہے۔

سنا ہے کہ بیٹے ماں کے اور بیٹیاں باپ کی ہوتی ہیں۔ لیکن ذاتی تجربہ ہے کہ بیٹے ماں کے ہوں نہ ہوں، مگر وہ ماں کی جان ضرور ہوتے ہیں۔

ایک پڑھی لکھی باشعور ماں جانتی ہے کہ چودہ سال سے اٹھارہ سال تک کی عمر میں ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے لڑکوں کے مزاج میں باغیانہ پن آنے لگتا ہے، اس لیے ان پر سختی نہیں کرنی چاہیے۔ گھر سے بھاگنے کے واقعات اسی عمر میں زیادہ ہو تے ہیں، بس یہ ایک خیال اسے اپنے بیٹوں کا غلام بنا دیتا ہے۔ بڑی مہارت اور دانشمندی سے وہ ان کے قدم غلط سمت بڑھنے نہیں دیتی، ان کی مرضی اور منشا کا بھی خیال رکھتی ہے۔ چھپ چھپ کر جا سوسی کرنا اس کا معمول بن جا تا ہے۔ کبھی بیگ سے چھالیہ کا ریپر یا لائٹر مل جا ئے تو جان پر بن جا تی ہے۔ اور بڑی باریک بینی سے اس کیے روز مرہ معمولات کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ اور احتیاط سے اسے بری لت سے چھٹکارا دلایا جا تا ہے۔ بڑے ہو تے لڑکے خود کو کچھ زیادہ بڑا ظاہر کرنے کے شوق میں مبتلا ہو کر لڑکیوں میں دلچپی لینے لگتے ہیں ان کے بارے میں فضول باتیں کرتے ہیں۔ یہاں بھی انہیں خواتین کی عزت اور لڑکیوں کے وقار کے بارے میں کہانیوں کے سے انداز میں سمجھانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔

یہ ہی وہ عمر کا نازک دور ہو تا ہے جب ان کے الٹے سیدھے دوستوں، شوق سے دھیان ہٹانے اور ان ترقی کی راہ متعین کرنے میں بھی والدین کو بہت سے حربے آزمانے پڑتے ہیں۔اس عمر میں ان کے باغیانہ مزاج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کی ضد، ہٹ دھرمی اور بسا اوقات بدتمیزی برداشت کرنا اس فکر کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو والدین کو ان کی اداسی، تنہائی کے زیرِ اثر آکر خود کشی جیسے اقدام کی ہوتی ہے۔ پھر ان کی پڑھائی اور سالانہ امتحانات میں اچھی کارکردگی بھی ان کے پیش نظر ہو تی ہے۔ یوں بیٹوں کے اعتماد میں بڑھاوا لیکن منفی سرگرمیوں پر بھی نظر ماں کو عجب امتحان میں ڈالے رکھتی ہے۔

بیٹے نے اسکول ختم کیا کالج میں پہنچا، ماں کے لیے عذاب ایک ڈگری اور اوپر چلا گیا۔ ذرا آزادی مل گئی، نئے دوستوں کی صحبت نے مزاج پر اثر ڈالا۔ ہٹ دھرمی، نافرمانی میں اور بہانے، جھوٹ میں، شرارت، بد تمیزی میں، خوف، اعتماد میں معصومیت، چالاکی میں اور سچ بے باکی میں تبدیل ہو گیا۔ لڑکوں کے بدلتے تیور لیکن اس عمر کی نفسیات اور مزاج سمجھنے والی حساس ماں محسوس کرنے کے باوجود دل میں اٹھنے والے اندیشے اور خطرات زبان پر نہیں لا رہی خود کو اپنی تربیت اورخون کا دلاسا دے کر تسلی دے رہی ہے لیکن انجانا خوف ہر وقت ماتھے کی لکیروں میں صاف دکھا ئی دیتا ہے۔ اسی عمر سے بیٹے گھر میں کم اور باہر زیادہ رہنا شرع کرتے ہیں، جس کی ایک مضبوط وجہ کالج اور پھر کوچنگ ہوتا ہے لیکن پھر گویا باہر رہنے کا ایک سولڈ بہانہ ہاتھ آجا تا ہے۔

گھر میں بیٹی نہ ہونے کی وجہ سے ماں ان ہی سے اپنے دکھ سکھ شوہر کی باتیں، رشتے داروں کے جھگڑے اور روز مرہ کے معاملات ڈسکس کرتی ہے، لیکن بیٹوں کی عدم دلچسپی اور کسی حد تک بیزاری کے تاثرات سے جلد وہ یہ حقیقت قبول کر لیتی ہے، کہ بیٹوں کی باتیں، ان کے شوق اور موضوعات ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ یہ سوچ کر وہ ان سے ان کے مزاج کے مطابق باتیں کرتی ہے، لیکن یہاں بھی ماں کو یہ تاثر دینے کی اپنے تئیں کامیاب کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے ماں کو کچھ نہیں معلوم۔ اب لے دے کے ماں کے پاس کچن اور بچوں کی پسند کے کھانے رہ جا تے ہیں۔ لیکن یہاں بھی ایک پڑھی لکھی ماں کو بیٹوں کو موٹاپے اور بیماریوں سے دور رکھنے کی فکر میں ہاتھ ہلکا رکھنا پڑتا ہے جس پر اسے بیٹوں کی اکثر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جو کبھی بیٹے اسے یہ بتائیں کہ ان کے دوست اس کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانے کتنے پسند کرتے ہیں تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی۔ کہ چلو بیٹوں کے دوستوں کی معرفت ہی سہی انہیں ماں کے کھانوں کی قدر تو آئی۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2