2018 کے انتخابات میں کیا نیا ہونے جا رہا ہے؟


انتخابات کا موسم ہے۔ اس موسم میں سیاسی جذبات میں ابال آیا ہی کرتا ہے۔ ماضی میں جب سیاسی بیان محض اخبار ہی شائع کرتے تھے تب بھی بتاتے تھے کہ فلاں کی تقریر لہو گرمانے والی، ولولہ انگیز تھی یا ٹھنڈی۔ نعرے فلک شگاف ہیں یا نہیں، اندازہ لگائیں، فلک شگاف۔ اب اس کے ساتھ نیوز چینلز، سوشل میڈیا نے سیاسی حدت کو کہیں زیادہ دہکا یا بھڑکا دیا ہے۔ اسی ماحول کو لائقِ احترام نصرت جاوید اندھی نفرت اور اندھی محبت کا نام دیتے ہیں۔ یہ سب پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا، نئی بات دراصل سوشل میڈیا پر عوام کی گہری دلچسپی اور وہ ردعمل ہے جو کسی بھی واقعے پر چند لمحوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

ماضی کے چند انتخابات کو یاد کرتے ہیں۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات۔ جنرل ضیاء الحق وردی میں پوری طاقت کے ساتھ صدر پاکستان ہیں۔ پیپلز پارٹی بغیر کسی بھٹو لیڈر کی موجودگی کے احتجاجاً الیکشن کا بائیکاٹ کرتی ہے، نتیجہ کیا ہوگا سب کے علم میں تھا۔ 1988 کے انتخابات میں منظر مکمل تبدیل ہو چکا تھا۔ ضیاء الحق اور ان کے قریب ترین رفقاء طیارہ حادثے کی بدولت دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، غلام اسحاق خان قائم مقام صدر ہیں، اسلم بیگ مسلح افواج کی کمان سنبھال چکے ہیں۔ 10 اپریل 1986 کو بےنظیر بھٹو کے استقبال نے پیپلز پارٹی میں زندگی کی جو نئی لہر دوڑائی تھی وہ آب و تاب کے ساتھ فضا میں موجود ہے۔ دھاندلی کی شکایات کے باوجود پیپلز پارٹی وفاقی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ جنرل حمید گل اور میجر عامر کی داستانیں محفلوں میں زیر بحث تب بھی اسی طرح تھیں جس طرح آج کچھ کردار زیر بحث ہیں۔

1990 کے انتخابات کا پس منظر یہ تھا کہ غلام اسحاق خان، بےنظیر بھٹو کی حکومت کرپشن کے الزام میں برطرف کر چکے تھے، صاف اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان کا پہلا نگران وزیر اعظم خود غلام مصطفیٰ جتوئی کو بنایا گیا جو نہ صرف توڑی جانے والی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تھے بلکہ بے نظیر بھٹو کے خلاف ایک ناکام قرارداد عدم اعتماد بھی پیش کر چکے تھے۔ پنجاب میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے غلام حیدر وائیں اور سندھ میں صداقت کا جھنڈا گاڑنے کے لیے جام صادق بطور نگران وزیراعلی موجود ہیں۔ نتائج کی کیا مجال تھی کہ وہ توقعات سے مختلف نکلتے۔

1993 کے سال نے دو نگران وزیراعظم دیکھے۔ 18 اپریل 1993 کو غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی توڑ کر بلخ شیر مزاری کو نگران وزیراعظم بنایا تاکہ شفافیت پر کوئی حرف نہ آ سکے، اس کابینہ کے وزیر اطلاعات مولانا کوثر نیازی تھے اور آصف علی زرداری نے بھی اسی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر حلف اٹھایا تھا جو لینے والے خود غلام اسحاق خان تھے۔ پنجاب میں راتوں رات مسلم لیگ سے منظور وٹو اپنی ولولہ انگیز قیادت کے ساتھ نمودار ہوئے اور پارٹی کو استحکام بخشا، مگر سپریم کورٹ نے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں 26 مئی 1993 کے دن قومی اسمبلی کو بحال کر دیا۔

دوسرے نگران وزیراعظم معین قریشی تھے جنہوں نے 18 جولائی 1993 کو حلف اٹھایا اور وزیراعظم ہاؤس میں پہلا دن گزارتے ہی وزیراعظم ہاؤس کے کچن کے شاھانہ اخراجات کا عظیم مقدمہ عوام کے سامنے رکھا اور یہ بھی بتا دیا کہ یہ درویش اب میریٹ ہوٹل سے دال ساگ منگوا کر کام چلائے گا تاکہ قوم کی بچت ہو۔ اس پس منظر میں انتخابات منعقد ہوئے۔ ملک بھر سے ڈالے گئے ووٹوں کی زیادہ تعداد نواز شریف کو ملی مگر نشستیں پیپلز پارٹی کو، وفاقی حکومت پیپلز پارٹی نے بنائی اور پنجاب میں پیپلز پارٹی اور منظوروٹو کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ دوسرا مطلب یہ کہ جس فیصلے کا ظہور 18 اپریل 1993 کو سامنے آیا تھا اسے سپریم کورٹ نے وقتی طور پر روکا تو ضرور مگر عمل مکمل ہوا بھلے اس کی قیمت خود غلام اسحاق خان کو بھی چکانا پڑی۔ بہرحال اس پس منظر میں انتخابات ہوئے، نتیجہ صاف ظاہر تھا۔

1997 کے انتخابات منعقد ہونے سے قریب آٹھ ماہ قبل حامد میر، نصرت جاوید اور عامر متین صاحب پی سی بھوربن میں ہونے والی ایک ملاقات کا احوال بیان کرتے ہیں جب نواز شریف نے انہیں دعوت دی اور نہ صرف اپنی حکومت آنے کی خبر دی بلکہ ان سے اپیل کی کہ ہماری حکومت قائم ہونے کہ بعد کم از کم چھ ماہ تک ہم پر بے رحمی سے تنقید نہ کی جائے بلکہ کام کرنے کا وقت بھی دیا جائے۔ پھر فاروق لغاری نے کرپشن کے الزام لگا کر خود اسی پارٹی کی حکومت کو برطرف کر دیا جس نے انہیں صدر پاکستان بنایا تھا۔ ان انتخابات سے کچھ عرصہ قبل ہی عمران خان جو کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اخبارات میں مضمون لکھنے کے علاؤہ رفاہی خدمات اور سیاست میں کبھی قدم نہ رکھنے کا یقین دلانے میں مصروف تھے اچانک تحریک انصاف کی بنیاد رکھ کر انتخابی اکھاڑے میں کود چکے تھے مگر انہیں سنجیدگی سے کوئی بھی نہیں لے رہا تھا اور کرپشن کا جو نعرہ وہ بلند کر کے سیاست میں کودے تھے وہ نعرہ کامیابی سے نواز شریف نے اچک لیا تھا۔ آصف زرداری گرفتار تھے اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اسی طرح احتساب کا شکار تھے۔ رمضان المبارک میں انتخابی مہم چلتی رہی۔ پولنگ ہوئی۔ نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ واپس اقتدار میں آ گئے۔

باقی حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2