چکوال میں نیرنگئی سیاست دوراں


ایک چکوال ہی کیا، ملک بھرمیں نیرنگ ئی سیاست کا جادوسرچڑھ کر بول رہاہے۔ 2018ء کے عام انتخابات کے لیے بڑی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم پروہ بھونچال آیا ہے کہ شایدہماری تاریخ میں چشم فلک نے نہ دیکھاہوگا۔ بے رحم سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ محسن بھوپالی کی روح کے ساتھ معذرت کے ساتھ، اکثرحلقوں میں تو یوں ہواہے کہ:
نیرنگ ئی سیاست دوراں تو دیکھیے
”ٹکٹ“ انہیں ملا جو شریکِ سفر نہ تھے

بلا شبہ ٹکٹ دینے اورلینے والوں نے فیصلہ سازی کے ضمن میں مشکل ترین وقت دیکھاہے۔ سیاسی جماعتوں نے جہاں کئی امیدواروں کوگرین سگنل دیتے دیتے، ٹکٹوں کی الاٹمنٹ میں انہیں جھنڈی کرادی، وہاں بہت سے امیدوار، حتیٰ کہ ٹکٹ ہولڈربھی، جنہوں نے کب سے دائیاں اشارہ لگایاہواتھا، عین وقت پربائیں مڑگئے۔ ایک کالم میں اتنی گنجائش نہیں کہ ملک بھرمیں ہونے والی اس اتھل پتھل کاتفصیلی ذکرکیاجاسکے۔ صرف جنوبی پنجاب میں آخری روزن لیگ کے 12امیدواروں نے ٹکٹ واپس کیے۔ یہاں چکوال میں بھی سردارذوالفقاردلہہ نے آخری روز PP۔ 23سے ن لیگ کا ٹکٹ واپس کرکے NA۔ 64کے لیے پی ٹی آئی کی طرف سے جاری شدہ ٹکٹ عدالت میں جمع کرایا، تو لوگوں پرجیسے حیرتوں کے پہاڑٹوٹ پڑے، مگر سیاست کو ممکنات کا کھیل قراردیاجاتاہے اوراس میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتاہے۔ سردارذوالفقاردلہہ ان امیدواروں میں سے ہیں، جوانتخابات میں کھلے دل سے خرچ کرتے ہیں۔ وہ 2013ء کے عام انتخابات میں ن لیگ کے ٹکٹ پریہاں سے ممبرصوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ اس مرتبہ انہوں نے اس صوبائی حلقے کے علاوہ NA۔ 64سے بھی اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرائے تھے اور اس قومی حلقے کے لیے ٹکٹ کے خواہاں تھے۔ ن لیگ کی طرف سے انہیں سابقہ صوبائی حلقے ہی سے ٹکٹ مل سکا، مگرنیرنگ ئی سیاست دوراں دیکھیے کہ اب وہ قومی اسمبلی کے حلقہ NA۔ 64 سے پی ٹی آئی کے امیدوارہیں۔

NA۔ 64سے سردارغلام عباس پی ٹی آئی کے امیدوارتھے اوروہ سب سے فیورٹ قراربھی دیے جارہے تھے۔ حادثہ ان کے ساتھ یہ ہواکہ اپیلنٹ ٹریبونل کے جج جسٹس عبادالرحمان لودھی، جنہوں نے شاہدخاقان عباسی کو NA۔ 57مری سے انتخاب لڑنے کے لیے نا اہل قراردیا، اسی روزاس عدالت نے سردارعباس اوران کے بھتیجے سردارآفتاب اکبرکو بھی NA۔ 64چکوال سے نا اہل کردیا۔ 27جون کے دن یہ غیرمتوقع فیصلہ چکوال کی سیاست میں خاصابھونچال لایا۔ ایپلیٹ ٹریبونل کے ان فیصلوں کو امیدواروں نے چیلنج کیا۔

ہائی کورٹ کے دورکنی بنچ نے شاہدخاقان عباسی کی نا اہلی کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سمیت دیگر فریقین کونوٹس جاری کردیے۔ سردارعباس اورآفتاب اکبر کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ہوئے دورکنی بنچ نے آئندہ سماعت کے لیے آج کی تاریخ مقررکی۔ اس موقع پر ذوالفقاردلہہ پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے پہنچ گئے اورپارٹی قیادت نے عدالت کے فیصلے کا انتظارکیے بغیر انہیں ٹکٹ جاری کردیا۔ پارٹی کی طرف سے عذریہ پیش کیاگیاہے کہ ٹکٹ جاری کرنے کے آخری دن پی ٹی آئی کے پاس کوئی اورآپشن نہیں رہاتھا، کیونکہ سردارعباس اوران کے کورنگ امیدوارآفتاب اکبرکی اپیل منظورنہ ہوئی توان کی یہ سیٹ خالی رہ جائے گی۔

عدالت اوربعدازاں پی ٹی آئی کے اس فیصلوں سے چکوال کاسیاسی منظرنامہ یکسرتبدیل ہوگیا۔ سردارعباس کے حامیوں میں مایوسی پھیل گئی اورانہوں نے سردارذوالفقارکو ٹکٹ ملنے پر پرزوراحتجاج کیا، تاہم PP۔ 23کے لیے سردارعباس اورآفتاب اکبرکے کاغذات نامزدگی منظورہوچکے ہیں اورآفتاب اکبر کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ بھی مل چکاہے۔ اس موقع پرسردارعباس نے دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے امیدواروں PP۔ 21پرراجہ یاسرسرفراز، PP۔ 22پرراجہ طارق افضل کالس اورPP۔ 23پرسردارآفتاب اکبرکی حمایت کا اعلان کیا اوریوں ضلع میں اپنی اور پی ٹی آئی کی سیاست کو کسی توڑپھوڑسے بچالیا۔

خود انہیں آزاد امیدوارکی حیثیت سے نشان الاٹ ہوچکاہے اورانہوں نے عدالت عالیہ کے فیصلے کے بعداپنا لائحہ عمل طے کرنے کاعندیہ دیاہے۔ اب تک کی اس حکمت عملی کا انہیں ایک فائدہ یہ ہواہے کہ ان کے بھتیجے سردارآفتاب اکبر کی پوزیشن خاصی مضبوط ہوگئی ہے، کیونکہPP۔ 23سے ذوالفقاردلہہ کے ٹکٹ واپس کرنے کے بعدن لیگ کومجبوراًایک کمزورامیدوارکو ٹکٹ دیناپڑاہے۔

ان صفحات پرپہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ چکوال میں دوطاقتیں ووٹ بینک رکھتی ہیں، ایک مسلم لیگ(ن) اوردوسری سردارعباس۔ سردارعباس پرہم پارٹیاں بدلنے کے حوالے سے تنقیدکرسکتے ہیں، مگران کی عوامی مقبولیت کو نظراندازکرنازمینی حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہوگا۔ براہ راست عوامی رابطہ اورترقیاتی کا موں کا کریڈٹ انہیں دوسروں سے ممتازکرتاہے اوراسی بناپر وہ قابل لحاذذاتی ووٹ بنک رکھتے ہیں۔ ان کے ضلع ناظمی کے دورمیں اس پسماندہ ضلع میں بننے والے گیارہ ڈیمز، پانچ گرلزکالج، انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلاکا چکوال کیمپس، پولی ٹیکنیکل کالج، تین سیمنٹ فیکٹریاں، درجنوں بجلی کے منصوبے اورسڑکوں کاجال ان کا وہ کریڈٹ ہے، جس کی بنا پر وہ اپنے سیاسی حریفوں پربرتری رکھتے ہیں۔

2013ء کے عام انتخابات میں وہ اس حلقے سے آزادحیثیت میں الیکشن لڑکرایک لاکھ سات ہزارووٹ حاصل کرچکے ہیں۔ 2008ء میں NA۔ 60پران کے بھائی سردارنواب خان بحیثیت آزادامیدوار اورNA۔ 61پران کے حمایت یافتہ چوہدری پرویزالٰہی دونوں ہارگئے، مگرنوے، نوے ہزارسے زائدووٹ حاصل کیے۔ (اس مرتبہ بھی چوہدری پرویزالٰہی اس حلقے سے، جو اب NA۔ 65ہے، پرپی ٹی آئی اوران کی حمایت سے ن لیگ کے امیدوارسردارفیض ٹمن کے خلاف انتخاب لڑرہے ہیں ) سردارعباس دومرتبہ بھاری اکثریت سے ضلع ناظم منتخب ہوئے۔

1985ء کے بعدچکوال کا ووٹ پیپلزپارٹی کے لیے اجنبی رہاہے، مگرجب وہ1992ء میں پی پی میں تھے توانہوں نے اپنی عوامی مقبولیت کے بل بوتے پراپنی صوبائی اورسردارممتازٹمن کی قومی اسمبلی کی سیٹ(NA۔ 61)پرکامیابی حاصل کی، جس پرخودبے نظیربھٹوبھی حیران ہوئیں۔ اس دورمیں وہ صوبائی وزیربھی رہے(اس کے بعدیہاں پی پی کی دوبارہ وہی اجبنیوں والی صورتحال ہے)2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں بھی سردارعباس کے گروپ نے آزادحیثیت میں کامیابی حاصل کی، جب ن لیگ کا اقتدارعروج پرتھا۔

اگرچہ 2018ء کے انتخابات کے لیے تجزیوں سے پتاچلتاہے کہ پنجاب میں ن لیگ کو اب بھی ہرانا آسان نہیں، تاہم جن اضلاع میں وہ کمزورہوئی ہے، ان میں چکوال بھی شامل ہے۔ سردارعباس کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعدبجاطورپرسمجھاجارہاتھاکہ ن لیگ کے اس قلعے میں دراڑڈالناممکن ہوگیاہے، مگران کی نا اہلی اورٹکٹ کی تبدیلی سے حالات پھر سے بدل گئے ہیں۔ عدالت کی طرف سے سردارعباس کو اہل قراردینے کے بعداگروہ، پی ٹی آئی آزاد نظریاتی گروپ“کی طرف سے الیکشن لڑتے ہیں، توپی ٹی آئی کا ووٹ بینک متاثرہوگا اورن لیگ کے میجر(ر)طاہراقبال کو اس کا فائدہ پہنچ سکتاہے۔ اس حلقے سے دونوں ونگز(امیدواران صوبائی اسمبلی)کی انڈرسٹینڈنگ سردارعباس کے ساتھ ہے اوریہ لوگ مل کرخاصاہوم ورک بھی کرچکے تھے۔

اب تک دونوں ونگزکی ہمدردیاں انہی کے ساتھ ہیں۔ پی ٹی آئی کے دیرینہ مقامی اورٹکٹ سے محروم رہنے والے رہنما چوہدری علی ناصر بھٹی بھی سردارعباس کے ساتھ ہیں۔ اگر یہ ہمدردیاں بررقراررہیں اورسردارعباس نے آزار امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑاتومقابلہ ن لیگ کے میجرطاہراوران کے درمیان بھی ہوسکتاہے۔ دوسری صورت میں اگرچہ قومی اسمبلی کے اس حلقے میں پی ٹی آئی کے نئے امیدوارکی پوزیشن کمزورہے، تاہم اگر سردارعباس انتخاب نہ لڑکے اس حلقے سے ذوالفقاردلہہ کی حمایت کرتے ہیں، تون لیگ کوپچھاڑاجاسکتاہے۔ آنے والے چنددنوں میں پتاچلے گا کہ نیرنگ ئی سیاست دوراں ابھی اورکیاکیارنگ دکھاتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).