یاراں نال بہاراں ہی نہیں دوڑاں بھی ہوتی ہیں


ملک صاحب اصلی نسلی ملک تھے۔ زمینیں تھیں، ایک دفتر بھی بنا رکھا تھا پراپرٹی کا۔ گاہک اس میں کبھی دکھائی نہیں دیا تھا کسی کو۔ کام پتہ نہیں ملک صاحب کیا کرتے تھے۔ راہ جاتے پرائی آگ میں چھلانگ مارنے کے شدید شوقین تھے۔ اس کے علاوہ شکار کے شوقین تھے۔

اک محفل میں ان سے ملاقات ہوئی۔ کئی شکاری اکٹھے تھے۔ شکار کا اپنا کوئی شوق نہیں تھا۔ شکاریوں کے لطیفے آتے تھے۔ وہ بھی خیر سے خاصے واہیات۔ وہ سنائے۔ ملک صاحب کو شکاریوں کی ایسی تیسی ہوتے دیکھ کر دلی مسرت ہوئی۔ ہرن کی ستر فٹ ٹانگوں والا لطیفہ سن کر تو وہ بہت خوش ہوئے۔

ہماری دوستی ہو گئی۔ میرے تقریبا تایا کی عمر کے تھے۔ زندہ دل انسان پنگوں کے شوقین۔ ان کا ڈائلاگ تھا کہ انسان کا فرض ہے کسی کو فائدہ پہنچائے۔ یہ نہیں پہنچا سکتا تو نقصان پہنچائے۔ یہ بھی نہیں کر سکتا تو پھر فوت ہو جائے اس کا زمین پر کوئی کام نہیں۔

ملک صاحب ایک بار پنڈی سے پتہ نہیں کدھر کو شکار پر نکلے۔ راستے میں انہوں نے دیکھا کہ پولیس والے اور اسسٹنٹ کمشنر کسی کا گھر دکانیں گرا رہے ہیں۔ کافی رونق لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے گاڑی روکی حالات کا جائزہ لیا۔ بغیر سوچے سمجھے اپنی طرف سے ایک مظلوم پارٹی فرض کی۔ پولیس اور اے سی کو حکم دیا کہ کارروائی روک دیں۔ ان مظلوموں کو کچھ وقت دے دیں۔

پولیس والوں نے کہا جا جا توں پتہ نہیں کون کدھر سے آ گیا کام کر اپنا۔ ملک صاحب نے کہا اچھا پتر جا رہا ہوں پھر اپنے پیو کا بن اور ادھر ہی بیٹھ۔ وہاں سے اک مظلوم کو ساتھ لیا سیدھے ہائی کورٹ پہنچے حبس بیجا کا کیس کیا۔ آڈر لیے بیلف کو ساتھ لیا اور واپس آ کر بندے برآمد کرا لیے۔ ساتھ ہی پولیس والے اور اسسٹنٹ کمشنر صاحب بہادر پر قانون نافذ کرا دیا۔ لمبی کہانی ہے پھر کبھی۔

ملک صاحب البتہ کہانی اپنی مونچھ مروڑ کر سنایا کرتے تھے۔

ملک صاحب کے دفتر روز ہی جانا ہوتا تھا۔ اک دن دیکھا کہ ان کا ہیلپر آیا اور بولا کہ ملک صاحب ابرار کو چک کر لے گئے ہیں۔ ملک صاحب بولے بہت چنگا ہویا۔ اگلے دن گیا تو ہیلپر نے میرے بیٹھے ہوئے آ کر بتایا کہ ابرار کو رات بہت طبعیت سے پھینٹا ہے۔ ملک صاحب نے بہترین سمائل دے کر کہا اچھا ہوا۔

تیسرے دن پھر گیا تو ہیلپر پھر آ گیا۔ ملک صاحب ابرار کے کپڑے لے کر اسے الف حال بند کر رکھا ہے کمرے میں۔ ملک صاحب تھوڑے سے ڈھیلے پڑے پھر بولے کہ اس کی قلفی بن جانی ہے اس سردی میں۔ اب اپنی بس ہو گئی تھی ان سے پوچھا کہ یہ ابرار ہے کون۔ ملک صاحب سوچ میں پڑ گئے پھر بولے شاید میرا دوست ہے۔

ان کا ہیلپر کھڑا تھا بولا وسی صاحب ابرار دوست ہے ان کا۔
ملک صاحب بولے اگر میرا دوست ہوتا تو ایسے چکا جاتا۔
ملک صاحب چکے جانے میں کون سا رولا ہے۔ چار بندے چاہئیں جو اٹھا کر گاڑی میں ڈالیں کوئی بھی چکا جا سکتا ہے۔

ملک صاحب ہیلپر کو گھورا وہ چلا گیا۔ ملک صاحب بولے کہ ابرار میرا دوست ہے۔ اس نے کچھ فراڈیوں سے زمین خرید کر آگے بیچ دی میرے دوستوں پر۔ پیسے لے لیے تھے کافی سارے ایڈوانس میں کام سارا جعلی نکل آیا۔ اب وہ اپنی وصولی کرنے کے لیے ابرار کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔

ملک صاحب اگر ابرار بھی آپ کا دوست ہے اسے اٹھانے والے بھی آپ کے دوست ہیں۔ تو اسے آپ چھڑاتے کیوں نہیں۔ ہیلپر آپ کا روز اس کی کٹ لگانے کی خبریں سناتا ہے۔ ملک صاحب بولے یہ تمھیں دیکھ کر آ کے سناتا ہے۔ مجھے نہیں سناتا۔

ہیں مجھے کیوں سناتا ہے۔
ملک صاحب ہنسے اور بولے اس لیے سناتا ہے کہ تم ابرار کی مدد کرو۔
ملک صاحب میں کیسے مدد کروں میں تو اسے جانتا بھی نہیں۔ یہ بھی نہیں پتہ کس نے باندھا ہوا ہے۔ ان کو بھی نہیں جانتا۔
ملک صاحب بولے یار تم نہیں جانتے تو میں تو جانتا ہوں۔ تو تم مجھے کہو۔
اوہ اچھا، تو یہ بات ہے۔ حالانکہ مجال ہے کہ سمجھ آئی ہو کہ کیا بات ہے۔ ملک صاحب پھر کریں ابرار کی مدد وہ آپ کا دوست ہے۔
ملک صاحب یہ سن کر پھٹ پڑے۔ وہ کنجر میرا دوست ہوتا تو پھنستا؟

میں ادھر پراپرٹی کا دفتر کس لیے بنا کر بیٹھا ہوں۔ مجھ سے اس نے پوچھا تھا کہ یہ زمین جس کا سودا کر رہا یہ ٹھیک ہے یا غلط۔ آگے سودا کرتے وقت مجھ سے پوچھا تھا۔ جب اسے دھمکیاں مل رہی تھیں مجھے بتایا تھا۔ ابرار بندہ ہی غلط ہے۔ اگر میرا دوست ہوتا تو کھڑا ہو جاتا۔ تگڑی بات کرتا اکڑ جاتا انکار کر دیتا۔ مجھے بلا لیتا کہ ملک صاحب آنا ذرا گھلنا ہے آپ کے دوستوں سے تو مزہ آتا۔ یار وسی جو بندہ اپنے ساتھ نہیں ہے۔ اس کا ساتھ کبھی نہیں دینا چاہیے۔

ملک صاحب کا ڈائلاگ سن کر اپن سن سا ہو گیا۔ ملک صاحب چھوڑیں سب باتیں چلیں ابرار کو چھڑائیں اس کے گھر والے ہوں گے، بچے ہوں گے۔
ملک صاحب بولے بیٹھ پھر میں آیا۔
ملک صاحب ابرار کو واپس لے کر آ گئے۔ اسے خرچہ دے کر نہلا دھلا کر گھر بھجوایا۔ پتہ نہیں کیا سودے بازی ہوئی کیسا فیصلہ کرایا لیکن بندہ آ گیا۔

ملک صاحب اب سکون سے بیٹھے تھے۔ بولے یار بندہ اپنے یاروں کے لیے کیسے کیسے کام کر گزرتا ہے۔
اب میں کہنے ہی لگا تھا کہ اپنے یار کو کٹوایا بھی آپ نے بہترین ہے تین دن اور بلاوجہ پہلے ہی چھڑوا لیتے۔ لیکن ملک صاحب جس محبت سے مجھے دیکھ رہے تھے، اس سے کچھ کچھ شبہ ہوا کہ یار مجھے کہہ رہے ہیں۔

ملک صاحب نے پوچھا تمھیں پہلوان یاد ہے۔ پہلوان یاد آ گیا۔ لاہوری پہلوان چھوٹو سا کن ٹٹا ڈان۔ ملک صاحب بولے اک بار پہلوان کے پاس اک سب انسپکٹر آ گیا۔ بولا پہلوان جی میری سفارش اپنے کزن سے کرو۔ میری ترقی کے آڈر رکے ہوئے۔ تھانیدار بن کر خدمت آپ کی ہی کرنی ہے۔

پہلوان نے انسپکٹر سے کہا میری اپنے کزن سے بنتی نہیں ہے۔ اسے سیاست کا کیڑا ہے الیکشن لڑتا ہے۔ اس نے مجھے کچھ کہہ دینا یا انکار کرنا ہے۔ ہم دونوں نے لڑ پڑنا ہے۔ پھر میں نے اسے بڑا مارنا ہے اس کے محلے میں اس کے سپورٹروں کے سامنے۔ انسپکٹر نے کہا او پہلوان جی کچھ نہیں ہوتا۔
لڑائی ہو گئی تو کیا ہو گا۔ پہلے جیسے آپ بڑے بابرہ شریف ہیں۔ اک لڑائی ہمارے لیے بھی سہی۔ پہلوان بولا چل پھر ٹھیک ہے۔ اک لڑائی اپنے یار کے لیے بھی سہی۔

پہلوان پتہ نہیں گھر سے ہی لڑنے کے موڈ میں گیا تھا۔ جاتے ہی کزن کو حکم دیا اس نے انکار کیا۔ پہلوان نے اسے اٹھا کر نیچے رکھ کر رگڑنا شروع کر دیا۔ اس کا دفتر توڑا اس کے نوکروں کو پھینٹا۔ اس کے سپورٹروں کو چپیڑیں لگائیں۔ کزن کی ساری شو شا والی بتیاں گل کر کے آ گیا۔

کزن کے سالا صاحب محکمہ زراعت میں وزیر تھے۔ اس نے رو دھو کر پہلوان کے شوٹ ایٹ سائٹ آڈر کرا دیے۔ پہلوان کے پرانے کرتوت ایسے ہی تھے کہ اسے گولی لگتی۔

ملک صاحب نے یہاں تک قصہ سنا کر وقفہ کیا۔ پھر پوچھا پتہ پھر کیا ہوا؟ ظاہر ہے نہیں پتہ تھا۔ پوچھا کہ ملک صاحب پھر کیا ہوا۔ ملک صاحب نے اک کھڑکی توڑ قہقہہ لگایا اور بولے۔ انسپکٹر کا پہلوان کو فون آیا۔ پہلوان نس جا۔ تمھیں ڈھونڈ کر گولی مارنے کا حکم مجھے ہی ملا ہے۔
پہلوان پھر یاروں کو یاری کو ٹوں ٹوں کرتا ظاہر ہے دوڑ ہی گیا۔
آپ اس کہانی میں مورل ڈھونڈنے بیٹھے ہیں تو بیٹھے ڈھونڈتے رہیں۔ یاراں نال بہاراں ہی نہیں دوڑاں بھی ہوتی ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi