پاکستان میں عدم برداشت کا بڑھتا رجحان


ہم ایک انتہا پسند قوم ہیں۔ ہمارا موسم بھی انتہا پسند ہے۔ گرمی ہے تو ایسی شدید کہ جہنم کی آگ بھی شرما جائے۔ سردی ہے تو ایسی کہ ہڈیوں میں بہتے لہو کو بھی جما دے۔ ہم محبت کرتے ہیں تو پہاڑوں کو بھی چیرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ہم نفرت کرتے ہیں تو دشمن کو جب تک نابود نہ کر لیں چین سے نہیں بیٹھتے۔ ہمارے کھانے بھی تیز مصالوں سے آراستہ ہوتے ہیں اور ہماری سوچ بھی انتہا پسندانہ ہے۔ مذہب کے معاملہ میں بھی ہم ہر وقت لڑنے مرنے پر تلے رہتے ہیں اور سیاست میں بھی ہم اپنی مثال آپ ہیں۔ ہم اپنے غیر اور مختلف الرائے شخص کو برادشت کر نا بالکل پسند نہیں کرتے۔

قوموں کی اصلاح اخلاقیات کے قائم کیے بغیر ناممکن ہے۔ ایک شخص جو سچ نہیں بول سکتا وہ کیسے کسی اور کو سچ بولنے پر قائل کر سکتا ہے۔ ایک خائن کیسے کسی کو دیانتداری کی تلقین کر سکتا ہے۔ ایک چور کیسے کسی کے مال کی حفاظت کر سکتا ہے۔ پاکستان کے بے شمار مسائل ہیں۔ کراچی سے کشمور تا ملک کا بال بال مشکلات میں گِھرا ہوا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ ہمارا قدم ایک دفعہ آگے کی بجائے دو قدم پیچھے جاتا ہے۔ زوال پذیر معاشرہ میں اخلاقیات بھی دم توڑتی چلی جا رہی ہیں۔ میرے نزدیک ان تمام مسائل کی ایک بہت بڑی اور بنیادی وجہ انتہا پسندانہ سوچ اور عدم برداشت کا کلچر ہے۔ ہمارا معاشرہ مذہب، سیاست، لسانیت، صوبائیت، معاشرت، معیشت کی بنیاد اس قدر تقسیم در تقسیم ہے کہ الامان والحفیظ۔ ہر فرقہ، گروہ اور جماعت دوسرے کی زندگی اجیرن کرنے پر اس قدر تلی ہوئی ہے کہ اپنے نقصان کی کسی کو پروا ہی نہیں۔ ہم دوسروں سے نفرت میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ اس شاخ کو کاٹنےمیں کوئی خوف ہی محسوس نہیں کرتے جس پر ہم خود بیٹھے ہیں۔ ہم اس سر سبز درخت کی جڑوں کو کاٹنےمیں کوئی عار ہی محسوس نہیں کر رہے جو گزشتہ ستر سالوں سے ہمارے سروں کا سائبان بنا ہوا ہے۔ آخر ہمیں کیا ہوتا جا رہا ہے۔

دنیا کا کوئی ایک بھی مہذب اور ترقی یافتہ ملک نہیں جس میں اپنے مخالفین کی برداشت نہیں کیا جاتا۔ امریکا دنیا کی سپر پاور ہے۔ ٹرمپ دنیا کا طاقتور ترین شخص شمار کیا جاتا ہے۔ کیا اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں پر ان مظاہرین کو کسی نے غدار قرار دیا۔ کسی نے یہ آواز اٹھائی کہ ان کو ملک بدر کر دو۔ مجھے یاد ہے عراق پر جب امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے حملہ کیا تو لندن، واشنگٹن، پیرس اور بہت سارے دوسرے شہروں میں لاکھوں لوگوں نے احتجاجی ریلیاں اور جلسو س نکالے۔ عوام نے حکومت کی رائے کو مسترد کر دیا لیکن کسی جگہ پولیس نے ماڈل ٹاؤن لاہور کا نمونہ پیش نہیں کیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ حملہ انسانی حقوق کی سخت پامالی اور ظالمانہ تھا، ان حکومتوں نے تحمل سے اپنے عوام کی آواز کو سنا۔ پھراس کے مطابق پالیسی بنانا یا انکار کرنا ان کا اپنا فیصلہ ہے جس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔

چند روز کے بعد عام انتخابات کی آمد آمد ہے۔ الحمدللہ ہم اپنےرویو ں میں پہلے سے زیادہ سختی پر آمادہ ہیں۔ عمران خان صاحب نے گزشتہ پانچ سال جو قابل افسوس طرز عمل اپنایا اس پر مزید کیا کہا جائے۔ 2014کے دھرنے آج تک عمران خان صاحب نے اپنے فالوورز کو صرف یہی سکھایا ہے کہ کس طرح نواز شریف صاحب کے خلاف نفرت کی آگ کو مزید بھڑکایا جا سکے۔ نواز شریف صاحب نے یہی طرز عمل اس سے قبل زرداری صاحب کے ساتھ روا رکھا۔ 1990 کی دہائی میں انہی نواز شریف صاحب نےمحترمہ بینظیر کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا۔ کبھی انہیں سیکیورٹی رسک اور کہیں غدار قرار دیا۔ لیڈرز ہمیشہ قوم کے لئے نمونہ ہوتے ہیں۔ عوام انہیں کو فالو کرتے ہیں۔ اگر ہمارے ان نام نہاد لیڈرزکے یہی کام رہیں گے تو ہم عوام سے کیا سمجھ داری کی توقع کر سکتے ہیں۔

مذہب جو کہ ایک بہت ہی حساس معاملہ ہے۔ یہ بھی ہماری عدم برداشت اور انتہا پسندیدگی کا شکار ہے۔ سنی بھائی شیعوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور شیعہ بھائی سنیوں کو۔ کہیں ہزارہ والوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ کہیں سکھوں، ہندوؤں اور احمدیوں پر حالات اس قدر تنگ کیے جاتے ہیں کہ انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہی عدم براشت کی معراج پھر طالبانی سوچ بنتی ہے۔

کیا ہمارا یہ طرز عمل قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کی اس تقریر سے مطابقت رکھتا ہےجس میں قائد اعظم نے نوزائدہ پاکستان کے بارے میں اپنا ویژن بیان کیا تھا۔ قائد اعظم محمدعلی جناح صاحب نے 11اگست1947 کو فرمایا ”آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندوں میں جانےکے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئےاور ریاست پاکستا ن میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں“۔

اگر ہم حقیقی رنگ میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے آپ کوبدلنا ہوگا۔ ہمیں اسی پاکستان کی تعمیر کرنا ہو گی جس کو قائد اعظم نے ہمارے لیے حاصل کیا تھا۔ ہمیں تنگ نظری اور عدم برداشت کی سو چ کو ترک کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے دلوں اور ذہنوں کو کھولنا ہو گا۔ یہ بات پتھر پر لکیر ہے کہ جب تک ہم میں کسی دوسرے کی بات کو سن کر برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہو گا ہم ذہنی، فکری اور معاشرتی ترقی نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).