کاش لاہور کو لاہور ہی رہنے دیا جاتا


شہباز شریف صاحب کو لاہور کا موازنہ پیرس سے کرنے سے پہلے پتہ ہونا چاہیے کہ چار سڑکیں اور پل بنا دینے سے کوئی شہر پیرس نہیں بن جاتا۔ پیرس میں وہ غربت نہیں ہے جہاں لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہو، وہاں وہ کسمپرسی اور حسرت بھری آنکھیں بھی نظر نہیں آتیں جن میں حکمرانوں سے انصاف کی کوئی امید باقی نہ رہی ہو۔ پیرس میں مائیں بچوں کو سڑک پر نہیں جنتیں اور نہ ہی اپنے نومولود بچوں کو ساتھ لئے تپتی دھوپ میں سڑکوں پر بھیک مانگتی نظر آتی ہیں۔ پیرس کی پولیس عوام کی محافظ ہے نہ کہ ان کی دشمن اور نہ ہی وہاں آئے دن وی آئی پی پروٹوکول لگا کر شہریوں کی تذلیل کی جاتی ہے۔

لاہور کو جاننے والے جانتے ہیں کہ لاہور تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے، اور اس وقت سے جدید شہروں میں شمار ہوتا ہے جب یورپ میں ٹوائلٹ تک بنانے کا رواج نہیں تھا، میری نظر میں صرف اس کی شان بڑھانے کی خاطر پیرس یا کسی اور مثالی شہر سے تشبیہ دینا خود لاہور کی اپنی توہین کے مترادف ہے اور اسے محض ایک غلامانہ ذہنیت کی عکاسی ہی کہا جاسکتا ہے، لیکن آپ نفسیاتی طور پر شہباز شریف جیسے ایک غیر متوازن شخص سے اور توقع کر بھی کیا سکتے ہیں؟ میں واضح کر دوں کہ کچھ دوست شہباز شریف صاحب کے لئے ایسے الفاظ کو نا مناسب سمجھتے ہیں لیکن میں واقعی یہ سمجھتا ہوں کہ انہیں کسی نفسیاتی ماہر کو دکھایا جانا چاہیے، جو سڑک سے چند رکاوٹیں ہٹاتے ہٹاتے چودہ افراد کو موت کی نیند سلا چکا ہو کم از کم میری نظر میں تو وہ ایک نارمل شخص نہیں ہو سکتے۔

صرف ماڈل ٹاؤن ہی نہیں کیا ہم نہیں جانتے کہ سینکڑوں افراد کو پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت ہلاک کرنے والی پنجاب پولیس کے سرپرست اعلی کون رہے ہیں؟ یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے طاقت کے نشے میں چور اور اپنی انا کا اسیر ہو کر قوم کا اربوں روپیہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر اپنے ذاتی مفادات اور مقبولیت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اگر لاہور کی بات کرتے ہیں تو ہزاروں پسماندہ علاقوں کا حق مار کر ان کے فنڈز لاہور پر لگائے گئے تاکہ تخت لاہور ہمیشہ ان کی جاگیر میں رہ سکے، اس کے باوجود لاہور کا حال یہ ہے کہ مون سون کی پہلی بارش کے ساتھ یہ شہر پانی میں ڈوب جاتا ہے۔

لاہور اکثر دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والے بھائیوں کو یہاں کے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی بہت اچھا لگتا ہے، اور وہ اکثر شہباز شریف صاحب کی کارکردگی کے معترف نظر آتے ہیں، لیکن لاہور کا حال پوچھنا ہے تو کسی لاہوری یا اس سے پیار کرنے والے سے پوچھئے۔ اس کا بیڑا غرق کرنے کے بعد جب کوئی اسے پیرس بولتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی زخم دے کر اس پر نمک چھڑک رہا ہو، اور جب بھی کسی نئی سڑک کی تعمیر کے لیے درختوں کو کاٹا جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے کسی نے ان زخموں کو مثل کر پھر سے ہرا کر دیا ہے۔ آخر کیوں؟

لاہور کو باغوں کا شہر کہا جاتا تھا جو کہ آج کہیں نظر نہیں آتے۔ کبھی اس کی فصیلوں، دروازوں اور محرابوں کو دور سے دیکھا جا سکتا تھا جو آج سیمنٹ اور کنکریٹ سے بنے بدصورت پلوں اور فلائی اوورز کے پیچھے چھپ چکے ہیں۔ لاہور کے عقب میں جو دریائے راوی بہتا تھا، آج اس میں جگہ جگہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے ہیں۔ تاریخی عمارتوں کی شکستہ حالی یوں تو پوری قوم کی بے حسی پر ماتم کناں ہے لیکن اکثر لوگوں کو شاید نہ معلوم ہو کہ آج اندرون لاہور کی کئی تاریخی حویلیاں اور مینارے قبضہ گروپ اور تاجر مافیا کے ہاتھوں مسمار ہو چکے ہیں۔ لاہور میں چاروں اطراف لہلہاتے کھیت، جو نہ صرف خوبصورتی کا منظر پیش کرتے تھے بلکہ بارش کے پانی کو زمین میں جذب کر کے زیر زمین پانی کی قدرتی سطح کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے، ان تمام کھیتوں پر آج ہاوسنگ سوسائٹیز تعمیر ہو چکی ہیں اور لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے۔ ہوا اور پانی زندگی ہیں جو کہ ٹاؤن پلاننگ کا کلیدی جزو ہیں، لیکن اس تاریخی شہر کی بد قسمتی دیکھئے، آج یہاں پینے کے لئے نہ صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی سانس لینے کے لئے تازہ ہوا۔

اور بس یہی نہیں، ثقافت اور ادب ہمیشہ سے لاہور کی ایک پہچان رہی ہے لیکن اس کے فروغ کے لیے فنکاروں کو حکومت کی خاص توجہ اور سرپرستی کی ضرورت ہوتی ہے، چند سال پہلے تھیٹر کے معروف اداکار محمود خان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں وفات پا گئے، حکومت پنجاب نے اہل خانہ سے وظیفہ کا وعدہ کیا جو آج تک وفا نہ ہوسکا۔ آج نہ تو لاہور کے تھیٹر میں وہ رونقیں ہیں اور نہ پاکستان ٹیلی ویژن پر اس معیار کے ڈرامے۔ آخر کہاں گئیں وہ تمام ادب کی شخصیات جو پاکستان کا فخر تھیں۔ فیض احمد فیض، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ جیسے نام اب شاید لاہور کی داستانوں میں ہی ملیں گے، اور ان کے بعد تو یوں لگتا ہے جیسے یہاں کی دھرتی ادب و ثقافت میں بھی بانجھ سی ہوگئی ہے۔

اور ان سب کے بعد آپ لاہور کے باسیوں کو لے لیں، جن کی وجہ سے اسے زندہ دلانِ لاہور کہا جاتا ہے، آج نہ تو آپ کو ان کے چہروں پر وہ مسکراہٹ نظر آتی ہے اور نہ وہ زندہ دلی، اگر کچھ نظر آتا ہے تو غم اور بد حالی کے شکن۔ شہباز شریف صاحب سے گزارش ہے کہ شہر سڑکوں اور عمارتوں سے نہیں بلکہ لوگوں سے آباد ہوتے ہیں۔ آپ لاہور کو پیرس تو نہ بنا سکے کاش آپ نے لاہور کو لاہور ہی رہنے دیا ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).