معذور افراد کا الیکشن


ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ تیس لاکھ کے قریب معذور افراد ہیں۔ یہ تعداد بالکل بھی درست نہیں مانی جاسکتی اس لئے کہ درست اعداد و شمار کا ہمارے ہاں فقدان ہے۔

نہ تو مردم شماری میں ان لوگوں کو درست طریقے سے شمار کیا گیا، نہ نادرا کے پاس اٹھارہ سال سے کم عمر لوگوں کی معذوری کا درست ریکارڈ ہے اور نہ ڈبلیو ایچ او کی اس رپورٹ کو درست مانا جاسکتا ہے کہ جس کے مطابق پاکستان میں دس فیصد افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔

معذور افراد معاشرے کا وہ نظر انداز طبقہ ہیں جن کے شمار میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ جو تخمینہ میں نے ابتدا میں دیا یہ ایک اندازہ ہے جو مختلف سرویز میں دیا گیا ہے۔ اسی کی بنیاد پر ہم معذور افراد کے مقدر کا فیصلہ کرتے ہیں۔

اسی پر ہم ان کے لئے وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں جن کے ثمرات ان تک کبھی نہیں پہنچتے۔ اسی بنیاد پر ان کے اسکول کھولے جاتے ہیں جہاں نااہل لوگوں کی سرکاری بھرتیاں کی جاتی ہیں جو معذور افراد کے مقدر کو اور بھی تاریک کر دیتے ہیں۔

انہی فرض کردہ اعداد و شمار کی بناپر بجٹ میں معذور افراد کے لئے رقوم مختص کی جاتی ہیں۔ اسی تعداد کو مدنظر رکھ اسپیشل ایجوکیشن کے تمام فیصلے لئے جاتے ہیں۔ لیکن آج کا موضوع معذور افراد کے درست اعداد و شمار نہیں بلکہ الیکشن میں معذور افراد کے کردار کے بارے میں ہے۔

دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں ن لیگ نے ایک کروڑ چالیس لاکھ ووٹ لئے ، تحریک انصاف کے ووٹ ستتر لاکھ کے لگ بھگ تھے اور پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی تعداد ان سے بھی کم تھی۔ یہ ووٹ بیس کروڑ کی آبادی میں سے ڈالے گئے تھے۔ اگر ہم پارٹیوں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد کا جائزہ لیں اور پاکستان میں معذور افراد کی تعدادکے تخمینے کا جائزہ لیں تو تیس لاکھ ووٹ کسی بھی پارٹی کا مقدر بدل سکتے تھے۔

اس کالم کے ذریعے دراصل سیاسی پارٹیوں کو یہ لالچ دلانا مقصود ہے کہ اگر وہ معذور افراد کے لئے کام کریں تو اتنی بڑی تعداد میں ووٹ آپ کے ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ بیس سال معذور افراد کے لئے کام کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب تک سیاسی جماعتوں کو اپنی بقاکا لالچ نہیں ہو گا اس ملک کے معذور افراد کی حالت نہیں بدلے گی۔ اس سلسلے میں معذور افراد کو بھی اپنی آواز بلند کرنی پڑے گی۔ اپنے آپ کو ایک انتخابی پریشر گروپ کے طور پر سامنے لانا ہو گا۔

پارٹیوں کے منشور سامنے آ گئے ہیں، کسی پارٹی نے اپنے منشور میں معذور افراد کے لئے کسی خاص پالیسی کا اعلان نہیں کیا۔ کسی کی طرف سے کسی معذور فرد کو امیدوار بنانے کا ٹکٹ نہیں دیا گیا، کسی جلسے میں انہیں شمولیت نہیں دی گئی، اس کالم کے بعد ہو سکتا ہے کہ چند روایتی سے بیان آ جائیں مگر اس سے صورت حال نہیں بدلےگی۔ معذور افراد کی حالت اس ملک میں اتنی دگرگوں ہے کہ فوری اقدامات کی ضرورت ہے ۔ اب کسمپرسی کا عالم مزید تعطل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

سیاستدانوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اگر ان کو معذور افراد کے ووٹ درکار ہیں تو اس کے لئے انہیں زیادہ تگ ودو کرنے کی ضرورت نہیں۔ نہ سڑکیں بنوانی ہیں، نہ اورنج ٹرین چلانی ہے ، نہ کوئی سونامی درکار ہے،نہ تین سوپچاس ڈیم بنانے ہوں گے، نہ لوڈ شیڈنگ انکا مسئلہ ہے ، نہ صحت کی سہولتوں کا اعلیٰ معیار انکا مطالبہ ہے نہ پانی ڈیم ان کا مسئلہ ہیں، نہ ترقی کے منصوبے ان کو چاہئیں۔

انکے مطالبات بہت سادہ ہیں، انہیں عزت دی جائے ، انہیں احترام دیا جائے، ان کے جو چند اسکول ہیں وہاں کتابیں مہیا کر دی جائیں، اگر یہ ملازمت کے حصول کے لئے جائیں تو ان کو دھتکارا نہیں جائے، انکی وہیل چیئر کا باتھ روم تک جانے کا رستہ بنا دیا جائے، سیڑھیاں جہاں ہوں وہاں ایک چھوٹا سا ریمپ بھی بنا دیا جائے تاکہ وہیل چیئر عمارت کے اندر داخل ہو سکے۔

بریل کی کتابیں دستیاب ہوں ، سفید چھڑیاں دستیاب ہوں۔ اسکولوں میں داخلے کو اذیت ناک نہ بنا دیا جائے، امتحان دینے کی اجازت دے دی جائے۔ بس اتنے سے مطالبات ہیں انکے سوا انکو فی الوقت کچھ نہیں چاہیے ۔ انکے یہی مطالبات پورے ہو جائیں تو انکی زندگیاں بہت بہتر ہو جائیں۔ لیکن سیاسی پارٹیوں کو اس کا ہوش ہی کہاں ہے۔

آپ کو شاید ان باتوں کی سمجھ نہ آئے میں مثال دے کر سمجھاتا ہوں۔ اوپر دیئے ہوئے مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ ہے کہ ہر عمارت میں جسمانی طور پر معذور افراد کی وہیل چیئر کو باتھ روم میں جانے کا رستہ ہونا چاہیے۔ چھوٹی سی بات ہے۔

لیکن اس اس چھوٹی سی سہولت نہ ہونے کے سبب پاکستان میں زیادہ تر جسمانی طور پر معذور افراد گردوں اور مثانے کی بیماریوں سے مر جاتے ہیں اس لئے کہ جب اسکولوں ، کالجوں اور دفتروں میں یہ سہولتیں نہیں ہوں گی تو یہ افراد حاجت کی صورت میں صرف ضبط کریں گےاور اتنے ضبط کا اثر انکے گردوں پر پڑتا ہے جس سے بے شمار وہیل چیئر استعمال کرنے والے پاکستانیوں کی موت ہو جاتی ہے۔

الیکشن کے حوالے سے بھی سوچنا ہوگا کہ انکے ووٹ کے حصول کو کس طرح یقینی بنایا جائے۔ معذور افراد کو پولنگ اسٹیشن تک لے جانے کے لئے کیا ٹرانسپورٹ موجود ہے؟

کیا نابینا افراد کے لئے بریل میں بیلٹ پیپر شائع کیا گئے ہیں؟ کتنے معذور افراد کے شناختی کارڈ بنے ہیں اور کتنے لوگ اس دور میں بھی اس سہولت سے محروم ہیں؟ کیا معذور افراد کے ساتھ کسی مددگار کو پولنگ بوتھ میں جانے کی اجازت ہو گی؟ کیا پولنگ کا عملہ معذور افراد کی مدد کرنے کو تیار ہو گا؟ کیا اس سلسلے میں پولنگ کے عملے کو کسی بھی قسم کی ٹریننگ دی گئی ہے؟

کیا تمام پولنگ بوتھ میں وہیل چیئر پہنچنے کا انتظام کیا گیا ہے؟ کیا قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد کے لئے ووٹ ڈالنے کا طریقہ سائن لینگویج میں دستیاب ہے؟ ذہنی معذور افراد کے لئے الیکشن کمیشن کا کیا حکم ہے؟ کیا سیکورٹی اسٹاف کو یہ پتہ ہے کہ نابینا افراد کی سفید چھڑی ہتھیار کے زمرے میں نہیں آتی؟ کیا کسی چینل پر قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد کے لئے اشاروں کی زبان میں نتائج بتانے کا انتظام کیا گیا ہے؟

اگر یہ سب نہیں کیا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ تیس لاکھ افراد کے ووٹ کاسٹ کروانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اگر اس پہلو پر تو جہ دی جاتی تو یہ تیس لاکھ لوگ کسی کی پارٹی کا مقدر بدل سکتے تھے۔

بہت دل چاہتا ہے کہ کوئی ایسا طریقہ سوچوں کہ کسی طرح معذور افراد کو معاشرے میں احترام ملے ، مساوی حقوق ملیں ۔ آج بہت سوچ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں کہ اگر سیاستدانوں کو تیس لاکھ ووٹوں کا لالچ ملے تو شاید وہ معاشرے کے اس نظر انداز طبقے کے بارے میں کچھ سوچنے پرتیار ہو جائیں ۔

اسکے علاوہ کوئی اور طریقہ سمجھ نہیں آتا کہ کس طرح ان لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے ۔ ہاں ایک اور طریقہ بھی ہے۔ ابھی خیال آیا ہے کہ اگر معذور افراد کو الیکشن میں ” جیپ ” کا نشان الاٹ کر دیا جائے تو ان کے سب دلدر دور ہو جائیں۔

راتوں رات قسمت بدل جائے، سب طعنے اور تحقیر ایک نشان کی بدولت مٹ جائیں۔ لوگ انکو مساوی تو کیا اپنے سےاعلیٰ درجہ دے دیں گے۔

ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا۔ سارے حقوق انکے حقوق ہوں گے۔ یہ اپنے اپنے علاقے میں راج کریں گے۔ بس ایک نشان کی بدولت پھر کوئی محرومی کی شکایت نہیں کرے گا۔ ٹھکرائے ہوئے اچانک ممتاز ہو جائیں گے۔ مختار ہو جائیں گے۔

بشکریہ جنگ

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar