سندھ کے سفید صحرا کا سحر


آپ پوری دنیا گھوم آئیں مگر سفید صحرا کو اگر آپ نے نہیں دیکھا تو میرے خیال میں آپ کے ذوق نظر میں ایک کمی رہ جائے گی۔ اس صورتحال میں اگر آپ خاموشی پسند ہیں اور ہواؤں کا نغمہ پسند کرتے ہیں، فطری حسن من کو بھاتا ہے اور جنگلی پودوں کی مہک احساس کو طراوت بخشتی ہے تو پھر سفید صحرا، وہ واحد جگہ ہے، جہاں جا کر تھکے ماندے احساس کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔

سندھ ایک زرخیز خطہ ہے۔ پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کی وارث سندھ کا کل رقبہ ایک لاکھ سینتیس ہزار نو سو نوی کلومیٹرز پر مشتمل ہے۔ جس میں 68000 اڑسٹھ ہزار کلومیٹرز پر بارانی رقبہ پھیلا ہوا ہے۔ سندھ کا رقبہ 63 فیصد ہے۔ ایرڈ زون کو مزید 3 حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جس میں کوہستان کا رقبہ تینتالیس ہزار، تھرپارکر کا بائیس ہزار اور نارا ریجن (سفید صحرا) تیئیس ہزار کلومیٹرز پر محیط ہے۔ سفید صحرا کی اپنی الگ خوبصورتی ہے۔ جس میں سندھ کے پانچ شہر: سانگھڑ، نواب شاہ، خیرپور، سکھر اور گھوٹکی شامل ہیں، جو ہندستانی سرحد تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ رقبے کے لحاظ سے تھرپارکر سے بڑا ہے۔ سفید صحرا، عمر کوٹ سے لیکرہتھونگو، گھوٹکی سے گزرتا ہوا پنجاب سے جا ملتا ہے۔ جس کے آگے چولستان کی خوبصورتی بکھری ہوئی ہے۔ سفید صحرا چولستان اور تھرپارکر کے بیچ میں واقع ہے۔

یہ ریت ایک حسین منظر پیش کرتی ہے۔ جس کے اوپر چمکتا ہوا سورج، چاند یا ستاروں کی مدھم روشنی طلسماتی سحر پیدا کردیتی ہے۔ اس کے قریب چلنے والی ہوا کانوں میں رس گھولنے لگتی ہے۔

سفید صحرا کی ریت سفید چاندی جیسی ہے۔ یہ ریت پانی کو روکنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ علاوہ ازیں کھیتی باڑی میں کسانوں کو مشکلات درپیش ہوتی ہیں کیونکہ پودے آسانی سے جڑ نہیں پکڑتے سکتے۔ لہٰذا تھرپارکر اس خطے کی نسبت برسات کے بعد زیادہ سرسبز ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفید صحرا کے لوگ کھیتی باڑی کے علاوہ آمدنی کے لئے مختلف ذرائع پر انحصار کرتے ہیں، جس میں ہاتھ کے ہنر بھی شامل ہیں۔

سانگھڑ، سفید صحرا کا اہم شہر ہے۔ ہر شہر کی اپنی الگ خوبصورتی، مزاج و کشش آپ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ سانگھڑ کی شامیں خاموش، مضطر اور پراسرار دکھائی دیتی ہیں۔ ہوائیں بھی سہمے انداز میں خوشبوؤں کو بکھیرتی رہتی ہیں۔ منصورہ کے پرانے آثارقدیمہ بھی سانگھڑ کے قریب واقع ہیں۔ یہ شہر کبھی اپنی ثقافت کی رنگارنگی و کاروبار کے مواقع کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔

منصورہ کا قدیم شہر کیسے تباہ ہوا تاریخ نویس ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پائے۔ سانگھڑ سے بہتا ہوا نارا کینال اور مکھی جھیل نے اس علاقے کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ گو کہ مکھی دریا فطرت کا ایک حسین تحفہ ہے۔ پانی، زمین اور جنگلی پودوں کی ملی جلی مہک فضاؤں میں تیرتی ہے۔ وہ ہوا آلودہ سانسوں کی ساری تھکن اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ وقت بدلنے کے باوجود شہر کی قدامت برقرار رہی۔ قدامت کا مگر اپنا منفرد حسن ہے۔ راستے اور عمارتیں بوسیدہ لگیں گی۔ سڑکوں پر بیل گاڑیاں اور تانگے بھی مخصوص آہنگ پیدا کرتے ہوئے رینگتے دکھائی دیں گے۔ مگر ان کے درمیان اس خطے کی پراسرار تاریخ کی دھیمی سانسیں محسوس ہوتی رہیں گی۔ اس سکوت میں جھیل کی لہروں کا ترنم کانوں کو بھلا لگتا ہے۔ اس جھیل کا اصل نام ماکھی ہے۔ یعنی شہد کی مکھی۔ کیونکہ جب مکھی جنگل بہت گھنا تھا تو یہاں شہد کی مکھیاں وافر انداز میں پائی جاتی تھیں۔

مکھی جھیل حر تحریک کا مرکز رہی ہے۔ یہ 1843 کی بات ہے جب انگریزوں نے میروں کو شکست دے کر سندھ فتح کرلی تھی۔ 1880‏ء میں پیر پاگارے سید صبغت اللہ شاہ نے حر تحریک کی بنیاد ڈالی۔ آپ نے بارہ سال کی عمر میں چھٹے گدی نشین کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے شروعکیے۔ پیر صاحب نے ہمیشہ انگریز سرکار سے ان کی زیادتیوں پر احتجاج کیا۔ یوں 1930ء میں انہیں بغیر لائسنس رکھنے کے جرم کی پاداش میں آٹھ سال کی سزا سنا کر رتنا گری، مدناپور اور علی پور کی جیلوں میں رکھا گیا۔ مگر بغاوت کی آگ صبغت اللہ شاہ کی کے دل میں بھڑکتی رہی۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد انہوں نے انگریزوں کے خلاف لڑنے کے لئے اپنے مریدوں کو تیار کیا۔ جب 1940ء میں انہیں دوبارہ قید کیا گیا تو حر جماعت انگریزوں کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں، جس کے بعد انہیں 1943ء میں پھانسی دے کر شہید کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مکھی کی ہواؤں میں آج بھی گئے دنوں کی ایک قدیم او رپراسرار مہک بھری محسوس ہوتی رہتی ہے۔

دریاؤں کے قریب پروان چڑھنے والی قومیں رنگارنگ تہذیب کی مالک ہوتی ہیں۔ اس خطے میں ہاتھ کے ہنر کی گھریلو صنعتیں بھی موجود ہیں۔ سانگھڑ اور اس کے قرب و جوار میں رلیاں بہت خوبصورت بنائی جاتی ہیں۔

رلی سندھ کا ایک قدیم فن ہے۔ جو ری سائکلنگ (پرانی چیزوں کو دوبارہ کام میں لانا) کی بہترین مثال ہے۔ رلی سندھ کی عورت کے فنکارانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے جو لوک ورثے کی ذہانت اور سگھڑپن کی مثال ہے۔ رلی کے مختلف دیدہ زیب ڈزائنز ملتے ہیں، جن میں چاند تارا، چؤمکھی، مائی سندھ، کھجی ٹاری وغیرہ شامل ہیں۔ یہ نام فطرت سے لئے گئے ہیں جانوروں، ستاروں، پھولوں، پودوں وغیرہ سے منسوب ہیں۔ یہ ہاتھ کے ہنر کی گھریلو صنعتیں مقامی لوگوں کے لئے فائدیمند ثابت نہیں ہو سکیں کہ شہر کے ہوشیار بیوپاری ان سے گج، رلیاں اور ہاتھ کی کڑاہی شدہ کپڑے سستے داموں خرید کر شہر میں منہ مانگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ آج کل ہاتھ کی بنی ان مصنوعات کی ملک و بیرون ملک بڑی مانگ ہے۔

یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے، جب محنت کشوں کو ان کی محنت کا معاوضہ صحیح نہیں دیا جاتا۔ چاہے کھیتوں میں کپاس چننے والی خواتین ہوں یا کھیتی باڑی میں مصروف کسان ہوں۔ یہاں کے کمہار، بڑھئی، جولاہے و دیگر محنت کشوں کی زندگیاں معاشی طور پر بدحالی کا شکار ہیں۔ اگر ہم قرب و جوار کے ممالک کو دیکھیں جیسے انڈیا، بنگلہ دیش اور چائنا وغیرہ تو وہاں پر محنت کش کا معیار زندگی قدرے بہتر ہے۔ ایشیا کے ملکوں جیسے انڈونیشیا، سری لنکا، ملائیشیا، سنگاپور اور نیپال وغیرہ کی بہتر معیشیت میں ان کے محنت کشوں کا بھرپور حصہ رہا ہے، جنہیں اپنے کام کا اچھا معاوضہ مل جاتا ہے۔

سندھ کے معروف محقق اور تاریخ دان اشتیاق انصاری لکھتے ہیں: ”سفید صحرا میں مختلف قسم کی گھاس و پودے ملتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے جنگلی جانوروں کو پھلنے پھولنے کا موقعہ ملتا ہے۔ یہاں ہرن، خرگوش، لومڑی، نیل گائے، بارہ سنگھا وغیرپائے جاتے ہیں۔ یہاں مختلف قسم کے پرندے بھی ہیں۔ کچھ دریاؤں میں مگر مچھ بھی دیکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کے دریا و تالاب ہجرت کرنیوالے پرندوں کا سائبان بنے رہتے ہیں۔ ”

یہ حقیقت ہے کہ خطوں کی جاگرافیائی ساخت، دریاؤں کی سحر انگیزی، ہواؤں کی مہک اور شفافیت۔ مکینوں کے مزاج پر اثرانداز ہوتی ہے۔ سفید سحرا میں مختلف قومیتیں پائی جاتی ہیں۔ جیسے: میگھواڑ، بھیل، اوڈ، ٹھکر، مری بلوچ، درس، راجڑ، مگریا وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا مزاج میں فطری ماحول کا اثر پایا جاتا ہے۔ یہ لوگ مہمان نواز اور بے حد محبت کرنے والے ہیں۔ باہر سے آنے والے سیاحوں کی دل سے آؤ بھگت کرتے ہیں۔ انہیں احساس نہیں ہونے دیتے کہ وہ ان کے خطے سے تعلق نہیں رکھتے۔

ان کے دل بھی بہتے ہوئےپانیوں جیسے ہیں۔ پانی جو مستقل بہتا رہتا ہے۔ کھبی ساکن نہیں ہوتا۔ حالانکہ یہ خطہ خشک سالی، قحط اور معاشی مسائل میں گھرا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہاں کے مکینوں کے دلوں میں دریا کی فراخدلی محسوس ہوتی رہتی ہے۔ گو کہ یہ خطے مستقل نظر انداز ہوتے رہے ہیں۔ اور انہیں حکومت کی پشت پناہی حاصل نہیں رہی۔ لیکن غریب ہونے کے باوجود بھی ان کے دلوں میں بیساختہ خوشی کا احساس ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ کسی خودرو جنگلی پودے کی مانند۔

مکھی جھیل کے آس پاس بہت سے پرندے پائے جاتے ہیں، جن میں اکثر ہجرت کرکے آنے والے پرندے شامل ہوتے ہیں۔ وہاں نصب واچ ٹاور سے شام کے حسین وقت پرندوں کے اڑنے کا منظر بہت حسین دکھائی دیتا ہے۔ آپ واچ ٹاور پر کھڑے ہوکر مسافر پرندوں کے رنگ دیکھتے ہوئے نہیں تھکتے۔ یہ پردیسی پرندے، مکھی کی لہروں سے اٹھکھیلیاں کھیلتے ہوئے، اڑتے سمے پروں کی بارش برساتے رہتے ہیں۔ مکھی کی لہروں پر وہاں کی شام کے جو دھنک رنگ دیکھے ہیں وہ آج بھی آنکھوں میں ڈوبتے سورج کی کرنوں کی طرح جھلملانے لگتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).