’ایران میں رقص کے لیے سب کچھ داؤ پر لگایا‘


ایران میں اپنے رقص کی وڈیو پوسٹ کرنے والی ایک انسٹاگرام سٹار کی گرفتاری اسلامی جمہوریہ کے بظاہر مغربی طور طریقوں سے دور رکھنے والے سخت قوانین کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ بی بی سی کی وومن افیئرز کی رپورٹر فرانک عمیدی بتاتی ہیں کہ جب انھوں نے ایران میں رقص کیا تو ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔

میں ایران میں 1980 کی دہائی میں پلی بڑھی، یہ ملک میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد بہت سے لوگوں کے لیے ایک مشکل وقت تھا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب اخلاقی نگرانی پر مامور پولیس گلیوں میں تعینات تھی، اور جب موسیقی، لپ سٹِک، نیل پولش اور یہاں تک کہ رنگین کپڑوں پر بھی پابندی تھی۔

یہ 1980-88 ایران، عراق جنگ کا دور تھا، راشن نہیں تھا اور بلیک آؤٹ معمول بن گیا تھا۔

لیکن ان سیاح دنوں میں بھی، مجھے اپنے دوستوں کے ہمراہ غیرقانونی میوزک ’ڈیلرز‘ سے خریدی ہوئی میوزک کسیٹس پر رقص کرنا یاد ہے۔

یہ ڈیلر بیرونی دنیا سے ہمارے رابطے کا واحد ذریعہ تھے۔ یہ ہمیں ان ایرانی پاپ سٹارز کی موسیقی فراہم کرتے تھے جو انقلاب کے دوران ملک چھوڑ کر لاس اینجلس چلے گئے تھے۔

انہی ’ڈیلروں‘ کی وجہ سے ہمیں مائیکل جیکسن کے گانوں کے بارے میں معلوم ہوا اور یہی ہمیں تازہ ترین ٹرینڈز جیسے کے بریک ڈانس اور ویم! جیسے گروپ سے آگاہ رکھتے تھے۔

سکول میں ہمیں جیسے ہی موقع ملتا ہم رقص کرتے۔ جب بھی اساتذہ آس پاس نہ ہوتے تو ہم گاتے اور رقص کرتے، حتکہ ہمیں معلوم تھا کہ رقص پر پابندی کا قانون موجود ہے جو تحریری نہیں۔

تہہ خانوں میں پارٹی

ایران پینل کوڈ میں رقص کو جرم قرار نہیں دیا گیا ہے لیکن پھر بھی اس کا قانون کافی مبہم ہے۔

ایران کے آئین کے مطابق عوامی مقامات پر کیا جانے والا کوئی بھی ’غیراخلاقی‘ عمل جرم ہے، لہذا عوام میں رقص کرنے کو غیراخلاقی عمل تصور کر کے سزا دی جاتی ہے۔

ایران میں سٹیج پر رقص کی اجازت ہے لیکن صرف مردوں کو۔

سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے ’غیراخلاقی عمل کو پھیلانا اور فروغ دینا‘ بھی تعزیرات ایران کے تحت جرم ہے۔

کلبوں اور بارز کے نہ ہونے کی صورت میں ایران میں صرف تقریبات ہی ایسی جگہیں تھیں جہاں لوگ رقص کر سکتے تھے لیکن ایسی تقریبات کا انعقاد بھی تکنیکی طور پر قانون شکنی ہے۔

ایسی ’خفیہ‘ تقریبات کا اغاز انقلاب کے فوراً بعد ہی ہو گیا تھا اور کوئی بھی قوت انہیں بند نہ کروا سکی۔

ان میں زیادہ تر خاندان میں ہونے والی تقریبات یا شادیاں تھیں، لیکن یہ مختلف شہروں میں بہت زیادہ ہونے لگیں تاکہ نوجوان موسیقی سنیں، رقص کریں اور شراب نوشی کر سکیں۔

’لوگ چیخ رہے تھے‘

جب میں نے 1990 کی دہائی میں اپنا ہائی سکول مکمل کیا، تہران میں خفیہ ’ریو‘ کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا۔ ہم بیرون ملک چھٹیاں گزارنے کے بعد واپس آتے ہوئے ٹیکنو اور ہاؤس سی ڈیز ساتھ لے آتے۔

اختتام ہفتہ پر ہم کسی نہ کسی کے تہہ خانے یا وِلا پر اکھٹے ہوتے، موسیقی چلاتے اور رقص کرتے۔

لیکن ایسی بہت سی تقریبات پر چھاپہ مارا جاتا اور میرے بہت سے دوستوں اور مجھے کم از کم ایک بار ایسی خفیہ تقریب میں شریک ہونے پر جیل ہوئی۔

اگر ایسی پارٹی کے بارے میں معلوم پڑ جاتا اور شراب مل جاتی تو ’مجرموں‘ کو جسمانی سزا کا سامنا کرنا پڑتا۔

میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتی ہوں جنھیں ایک رات باہر گزارنے پر 100 کوڑوں کی سزا ملی۔

شیمشک جو کہ تہران سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے وہاں ایک مرتبہ میں پارٹی پر گئی۔ ہم نے اس جگہ کا نام مشہور زمانہ پارٹی ریزورٹ ’ایبیزا‘ کے نام پر ’شیبیزا‘ رکھا تھا۔

کمرے میں بالکل اندھیرا تھا اور چمکتی روشنیاں واحد ایسی چیز تھیں جس کی مدد سے ہر چند سکینڈ بعد ہمیں دیگر رقص کرنے والے دکھائی دیتے۔

ایک بار جب روشنی چمکی تو میں نے ڈانس فلور پر ایک انجان داڑھی والا چہرا دیکھا، جس کے فوراً بعد ایک اور روشنی پڑنے پر ایک اور انجان چہرہ جو غصے میں دکھائی دیا۔

اچانک ہی تمام لائٹس آن ہو گئیں۔ لوگ چیختے ہوئے یہاں وہاں بھاگنے لگے۔ یہ پارٹی پر رضاکارانہ سکیورٹی فورس باسج ملیشیا کا چھاپہ تھا۔

ان کے پاس ڈنڈے تھے اور وہ ہر چیز توڑ رہے تھے۔ میرے دوستوں اور میں نے خود کو باتھ روم میں بند کر لیا۔ ہمیں خواتین کے چیخنے اور رونے کی آوازیں آ رہی تھیں، اور مرد معافی کے لیے منت کر رہے تھے۔

یہ سب کچھ ایک گھنٹے تک جاری رہا اور پھر خاموشی ہو گئی۔

ہم نے جب دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ہمارے دوست زمین پر خاموش بیٹھے ہیں اور ان کے چہرے آنسوؤں سے بھیگے ہوئے تھے۔

ملیشیا والے میزبان کو باہر لے گئے تھے اور 30 منٹ بعد وہ خوشی سے چلاتا ہوا واپس آیا۔

انھوں نے کہا: ’یہ ہمارے لیے خوش قسمتی کی رات ہے، وہ صرف پیسوں کے لیے آئے تھے۔‘

میوزک دوبارہ سے لگا دیا گیا اور ہم نے صبح تک رقص کیا۔

نیا پن

چھاپوں اور گرفتاریوں کی وجہ سے ہم دوسری پارٹیوں پر جانے سے کبھی نہیں رکے۔ ایسا کرنے سے ہر بار حکام سے بچنے کے لیے نئے طریقوں نے جنم لیا۔

ہم نے پولیس والوں کو پیسے دیے، اس بات کو یقینی بنایا کہ گاڑیاں پارٹی کے مقام کے باہر کھڑی نہ کی جائیں، اور مہمانوں کی فہرست کو صرف دوستوں تک محدود رکھا جائے۔

ہم نے کھڑکیوں کو بند کرنے کے لیے گدوں کا استعمال کیا تاکہ میوزک کی آواز باہر نہ جائے۔

ہم یہ سب کرتے رہے کیونکہ ہمارے خیال میں جو ہم کر رہے تھے وہ بنیادی طور پر غلط نہیں تھا۔

آج بھی نوجوان ایرانی کئی طرح سے معاشرتی اصولوں کو چیلنج کرتے ہیں اور قدامت پسند روایات کو توڑ رہے ہیں۔ انسٹاگرام پر رقص کرنے والی مائدح ہوجابری کی گرفتاری کے خلاف سوشل میڈیا مہم ان میں سے ایک ہے۔

ہر تھوڑے وقت کے بعد کریک ڈاؤن ہوتا ہے لیکن یہ نوجوان واپس آجاتے ہیں اور نئے ابھرتے رہتے ہیں۔ یہ وہ ہی سب کچھ ہے جو ہم نے پچھلی نسل کو پارٹیوں کی شکل میں دکھایا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp