عوام کے سیاسی شعور میں بہتری جمہوری ارتقا کا اشارہ ہے


عوام کے سیاسی شعور کی جانچ ایک مثال سے شروع کرتے ہیں۔ انور کمال کا گھرانہ، اُن کی بیگم اور تین بچوں پر مشتمل تھا۔ وہ شہر کے خوشحال علاقے میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ بڑا بیٹا اکائونٹس کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد برسرِ روزگار تھا۔ شادی کے بعد بیوی اور ایک بچے سمیت، والدین کے ساتھ رہتا تھا۔ چھوٹا بیٹا اور بیٹی زیرِ تعلیم تھے۔ انور کمال پیشے کے لحاظ سے تاجر اور ایک مصروف کاروباری شاہراہ پر شو رُوم کے مالک تھے۔ انور کمال کی بیوی اور بچے ایک مدت سے اپنا ذاتی مکان تعمیر کرنے کے خواہش مند تھے۔ آج رات کھانے سے فارغ ہونے پر اُن کے گھرانے نے اِسی معاملے پر غور کیا۔ انور کمال کا خیال تھا کہ اپنی بچت کو مکان تعمیر کرنے کے بجائے کاروبار کی وُسعت پر استعمال کیا جائے۔ اُنہوں نے بچوں کے سامنے ایک اور تجویز بھی رکھی۔ ذاتی مکان کی تعمیر کو چند سال کے لئے مؤخر کرتے ہوئے، اپنی بچت کو بچوں کی بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم کے لئے محفوظ کر دیں۔ بیوی اور بچوں نے کسی تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور ذاتی مکان کے حق میں دلائل دیتے رہے۔

کچھ دیر بعد انور کمال مان گئے۔ فیصلہ ہوا کہ اِس سال مناسب جگہ پر پلاٹ خرید کر مکان کا نقشہ بنایا جائے۔ تعمیر آئندہ سال شروع ہو۔ پلاٹ کی قیمت، تعمیر کا معیار اور بیڈ رومز کی تعداد کا تعین ہوا۔ لاگت کا تخمینہ تیار کیا گیا۔ مالی وسائل کی دستیابی پر بات ہوئی۔ بینک سے قرضہ لینے کا امکان زیرِ بحث آیا۔ اِس معاملے پر بھی غور ہوا کہ تعمیر کی نگرانی کے لئے کیا بیگم اور بچے وقت دے سکیں گے۔ مکان کی تکمیل میں درکار مدت پر بھی بات ہوئی۔ انور کمال صاحب نے آخر میں کہا کہ میں بھاری دل سے آپ سب کا فیصلہ تسلیم کرتا ہوں مگر ذاتی مکان کا حصول وقت کی ضرورت نہیں۔ اِس فیصلے کے نفع اور نقصان کا جائزہ لینا ضروری ہو گا تاکہ ہم آئندہ فیصلوں میں ہوش اور جوش کا تقابل کریں۔

انور کمال کے گھرانے نے یہ فیصلہ کرنے میں جن امور پر غور کیا وہی معاملات سرکاری پالیسی بناتے وقت، حکومت کے زیر غور ہونے چاہئیں۔ کیا ایسا ہوتا ہے؟ حکمران ہر شعبے کے لئے پالیسیاں بناتے ہیں۔ یہ پالیسیاں صحت ، تعلیم، انرجی، آبی مسائل، ٹرانسپورٹ اور بہت سے دُوسرے عوامی اہمیت کے حامل معاملات سے متعلق ہوتی ہیں۔ پالیسی بنانے کے بعد اُنہیں عوام کے سامنے اہتمام کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار پریس کانفرنس کے ذریعے اور کبھی سیمینار یا عوامی جلسے میں۔ عوام اِن پالیسیوں کو کتنی اہمیت دیتے ہیں؟ کیا اِن کو پڑھنے کی زحمت اُٹھائی جاتی ہے یا نہیں؟ مندرجات پر غور ہوتا ہے یا نظرانداز کر دیا جاتا ہے؟ اِس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کئے بغیر ہر قاری اتفاق کرے گا کہ حکومتی پالیسی میں خوش نما وعدوں کی کمی نہیں ہوتی۔ مثلاً تعلیمی پالیسی پانچ سال پر محیط ہو تو شرح خواندگی میں چالیس فیصد اضافہ کرنے کے علاوہ دیگر اہداف کا ذکر کچھ اِس طرح ہو گا۔

(الف) ہر بچے کے لئے تعلیم لازم کرتے ہوئے، غریب والدین کے لئے مالی سہولت کا انتظام ہو گا تاکہ وہ بچوں کو محنت مزدوری پر مجبور نہ کریں۔

(ب) جو بچے قبل از وقت اسکول چھوڑ جاتے ہیں اُنہیں قومی نمائندوں اور معاشرے کے ذمہ دار شہریوں کی مدد سے اسکول میں واپس لایا جائے گا۔

(ج) جن دیہات میں اسکول کی سہولت میسر نہیں وہاں نئے اسکول تعمیر ہوں گے۔

(د) پانچ ہزار اسکولوں کا درجہ پرائمری سے مڈل اور تین ہزار مڈل اسکولوں کو ہائی اسکول کا درجہ دیا جائے گا۔

(ر) تمام سرکاری اسکولوں میں صحت و صفائی کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

(س) ہر سال بیس ہزار اساتذہ کو ٹریننگ کی سہولت میسر ہو گی تاکہ وہ نصابی تعلیم کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر طالب علموں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر سکیں۔

(ص) جدید عالمی رحجانات کو سامنے رکھتے ہوئے، نصاب میں ضروری اصلاحات کی جائیں گی۔ نئی نسل کو سائنس کی تعلیم میں دُنیا کے ہم پلہ کیا جائے گا۔

(ط) قومی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے،طالب علموں کی تربیت، اسلامی اخلاقیات کی بنیاد پر ترتیب دیں گے تاکہ اسکولوں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد یہ طالب علم ملک کے ذمہ دار اور محبِ وطن شہری بن سکیں۔

(ع) اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے، اسکولوں میں غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینے سے طالب علموں کی شخصیت سازی پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔

قارئین اگر غور کریں تو اِس پالیسی میں مندرجہ ذیل باتوں کا ذکر مفقود ہے۔

(1)گزشتہ تعلیمی پالیسیوں میں کیا اہداف مقرر ہوئے اور اُن پر عمل درآمد کیوں نہ ہو سکا؟

(2)کیا مالی وسائل فراہم کئے گئے، اگر نہیں تو اِس دفعہ وسائل مہیا ہونے کے کیا امکانات ہیں؟

(3) ہر ہدف کی تکمیل کے لئے کتنے مالی وسائل درکار ہوں گے؟

(4) اہداف حاصل نہ کرنے کی وجہ، کیا ہماری انتظامی صلاحیت میں کمی تھی؟

(5) گزشتہ کوتاہیوں سے ہم نے کیا سیکھا اور کیا سبق حاصل کیا؟

(6) موجودہ پالیسی پر عمل درآمد کے لئے، کیا حکمت ِعملی اپنائی جائے گی تاکہ گزشتہ کوتاہیوں سے بچا جا سکے؟

(7) تکمیل کے انتظامات کون کرے گا؟

(8) عمل درآمد اور دورانِ تکمیل، نگرانی کی ذمہ داری کس کے سپرد کی جائے گی؟

(9) اہداف کی تکمیل کا جائزہ لینے کے لئے سہ ماہی، شش ماہی اور سالانہ جائزہ رپورٹ کون مرتب کرے گا؟ قاری اگر انور کمال کے گھرانے کی مثال سامنے رکھیں تو اُنہیں علم ہو گا کہ حکومت کی بیشتر پالیسیاں اِن اہم اُمور پر سوچ و بچار کے بغیر ہی ترتیب دی جاتی ہیں۔

اگر سیاسی جماعتوں کے منشور کا مطالعہ کیا جائے تو ہر شعبۂ زندگی کے بارے میں مختلف پالیسیوں کا اعلان ہوتا رہتا ہے۔ غیر ملکی امداد کا کشکول توڑ دینے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔ قرضوں پر انحصار ختم کرنے کی بات ہوتی ہے۔ محصولات سے وصول ہونے والی آمدن میں کئی گُنا اضافہ کرنے کا ارادہ کیا جاتا ہے۔ خود انحصاری کو فروغ دینے کا اعادہ ہوتا ہے۔ رشوت اور بدعنوانی کے خاتمے کا عہد کیا جاتا ہے۔ سیاست کی گفتار میں بے روزگار نوجوانوں کو نوکریاں دینے، تھانہ کلچر تبدیل کرنے، صحت کی سہولتیں اور تعلیمی اداروں کے معیار کو بہتر بنانے میں سبز باغوں کی کمی نہیں ہوتی۔ بجلی، پٹرول اور دُوسری سہولیات کی قیمت کم کرنے کو خوشنما الفاظ کا لبادہ پہنانے کے علاوہ، آبی مسائل کے حل کا نسخہ بھی پیش ہوتا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ سیاست میں صرف نعروں پر گزر بسر ہوتی تھی۔ ایک طرف سے روٹی، کپڑا اور مکان کی آواز آتی تھی تو دُوسری طرف سے صدا بلند ہوتی تھی کہ روٹی، کپڑا اور مکان، سب کا ضامن ہے قرآن۔ سیاسی لیڈر عوام کو اِسی بات میں الجھائے رکھتے تھے کہ ایشیا کا رنگ سرخ ہے یا سبز۔ سفر کی رفتار آہستہ رہی مگر جمہوریت آج ہمیں اِس مقام پر لے آئی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان صرف جذباتی نعرے نہیں بلکہ صحت، تعلیم، بجلی، ماحولیات، شجرکاری، نئی سڑکوں، شہروں کی صفائی اور عوام کے لئے سفری سہولتیں فراہم کرنے کا مقابلہ جاری ہے۔ عوام کی بڑی تعداد، اَن پڑھ سہی مگر سیاسی شعور سے عاری نہیں۔ وہ خوشنما وعدوں کی دُھند کے پار دیکھنے کی اہلیت حاصل کر چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood