ہم جنس پرستی سے بچہ بازی تک


ڈاکٹر مجاہد مرزا، ڈاکٹر لبنی مرزا، ڈاکٹر خالد سہیل، گوہر تاج اور وجاہت مسعود جیسے سینئر لکھاریوں کے ہوتے ہوئے ایسے حساس موضوع پر لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ان لکھاریوں نے جنسی بیماریوں، حمل کی پیچیدگیوں، ٹرانسجینڈرز(خواجہ سراوں ) کی حمل سے جوانی تک کے علاوہ بچہ بازی کی تاریخ کو بھی ایسے انداز میں لکھا ہے کہ ایک میٹریکولیٹ قاری بھی پڑھ کر اس سے سو فیصد رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔ اس مضمون میں، میں ہم جنس پرستی اور بچہ بازی کو کسی ڈاکٹر کی عینک سے نہیں بلکہ اپنی صحافتی اور انسانی حقوق کے کارکن کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کروں گا۔

میں اپنے مقصد کو واضح کرنے کے لئے معاشرے سے حقیقت پر مبنی ایک واقعہ مضمون میں ضرور شامل کرتا ہوں۔ آج بھی میں آپ کو ایک 19 سالہ ہم جنس پرست لڑکے کی کہانی سناوں گا۔ جو معاشرے کے بچہ بازوں کی وجہ سے 12 سال کی عمر میں ہم جنس پرستی کی طرف راغب ہونا شروع ہوا اور اب ہم جنس پرستوں کے ٹولے میں مکمل شامل ہوچکا ہے۔ مزید ان دونوں اصطلاحات، ہم جنس پرستی اور بچہ بازی پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ان کی وضاحت کی جائے۔

ہم جنس پرستی کے لئے انگریزی میں لفظ ہوموسیکشویلٹی (Homosexulality) استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ایک ہی جنس کے دوافراد کے درمیان جنسی یا رومانوی کشش ہے۔ اگر یہ تعلق دو مردوں کے مابین ہو تو انہیں گے (Gay) کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر دو خواتین کے درمیان ہو تو وہ لیس بین (Lesbians) کہلائیں گے۔ ہم جنس پرستی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسانی تاریخ، لیکن اس کی تاریخ بیان کرتے ہوئے مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ چونکہ یہ ایک غیر فطری عمل ہے اور بعض ممالک میں اس عمل سے منسلک افراد کے لئے سخت سزائیں مقرر ہیں اس لئے ایسے افراداپنی شناخت ظاہر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن سو سے زیادہ ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت حاصل ہے جن میں تقریبا نو اسلامی ممالک بھی شامل ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہم جنس پرستی کے فروغ اور اس فعل سے منسلک افراد کے تحفظ کے لئے درجنوں تنظیمیں سرگرم ہیں۔ جن میں (International Lesbian Gay Bisexual Trans and Inter sex Association) آئی ایل جی اے سر فہرست ہے۔

بعض ماہر جنسیات کے مطابق یہ عمل فطری ہوتا ہے یعنی ایسے لوگ پیدائشی طور پراپنے ہم جنس افراد کے لئے جنسی کشش رکھتے ہیں۔ لیکن بعض ماہر نفسیات اور لکھاریوں کے مطابق جب انسان کو کراس جینڈر یعنی اپوزیٹ جنس مہیاء نہ ہو تو وہ جنسی تسکین حاصل کرنے لئے اپنے ہم جنسوں کی طرف راغب ہوتا ہے۔ ایسے لکھاری مثال میں جیلوں اور ہاسٹلوں کو پیش کرتے ہیں۔ جن میں ہم جنس پرستی کا عمل باہر کے معاشرے کی نسبت کسی حد تک زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات قبل ذکر ہے کہ چاروں بڑے مذاہب میں اس عمل کوغیر فطری اور قابل گرفت تصور کیا جاتا ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عمل معاشرے میں بگاڑ کاسبب بن سکتا ہے۔

بچہ بازی کی اصطلاح ہم جنس پرستی سے بلکل مختلف ہے۔ لیکن بعض لوگ بچہ بازی کو ہم جنس پرستی ہی سمجھتے ہیں۔ ہم جنس پرستی میں دو افراد باہمی خوشی سے یہ تعلق قائم کرتے ہیں جبکہ بچہ بازی میں بڑی عمر کے افراد کم عمر لڑکوں کو ورغلا کر ان سے جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ بعض دفعہ بڑے عمر کے افراد کم عمر لڑکوں کے ساتھ زبردستی (By Force) یہ فعل کرتے ہیں۔ اور آئے روزایسی خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ جن میں کم عمر لڑکوں کوجنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا ہوتا ہے۔ بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے تنظیمیں اس جرم کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ اب اس سوال کا جواب ایک ماہر نفسیات یا ماہر جنسیات ہی دے سکتا ہے کہ اگر ہم جنسی پرست فطری طور پر یعنی پیدائشی طور پر ہی ایسے ہوتے ہیں تو ایک کم عمر لڑکا جو ہم جنس پرست نہیں ہوتا بلکہ والدین کی لاپرواہی اور بچہ بازوں کی وجہ سے اس قبیح فعل سے وابستہ ہوجاتاہے، چند سالوں میں ہم جنس پرست کیسے بن جاتا ہے؟

اب میں معاشرے میں جاری اس قبیح فعل سے پردہ اٹھانے والا ہوں۔ جس سے باخبر تو سب ہیں مگر لکھنے یا بیان کرنے سے اکثر لکھاری یا صحافی کتراتے ہیں۔ یہ انیس سالہ لڑکے کی سچی کہانی ہے۔ جنہیں سال 2011 کو بارہ سال کی عمر میں پہلی بار ایک عمررسیدہ بچہ بازنے دو سو روپے کے عوض اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ وہ لڑکا گھر پہنچ کر سو گیا تو اس کی ماں نے اس کے سامنے والے جیب میں دو سو روپے دیکھے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے بیٹے سے پوچھ گچھ کرتی۔ اس نے بیٹے کو اٹھا کر گھر کے سودا سلف کے لئے سو روپے مانگ لیے۔ حالانکہ اس کا والد سرکاری ملازم تھا جس کی اچھی خاصی تنخواہ تھی۔

اب تو ڈر ہی ختم ہوگیا جب بھی پیسوں کی ضرورت پڑتی کسی نا کسی پکے عمر کے بچہ باز کے پاس پہنچ کر ایک مخصوص کام کے عوض پیسے وصول کرتاتھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے خرچے بھی بڑھتے گئے۔ اس لئے اب وہ زیادہ سے زیادہ بچہ بازوں کی جنسی ضرورت پوری کرنے لگا۔ لیکن آج کل وہ ایک مکمل ہم جنس پرست ہے۔ جو پیسوں کے عوض نہیں بلکہ یہ گندہ فعل اپنی جنسی تسکین حاصل کرنے کے لئے کر رہا ہے۔

بچہ پیدا کرنا کمال نہیں یہ ایک فطری عمل ہے۔ جو انسانوں اور جانوروں میں یکساں ہے۔ لیکن اچھی تربیت دے کر اپنے بچے سے انسان بنانا ایک بہت بڑا فن ہے جو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی قوم بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوتاہی برتے تو اس کے زوال کو کوئی نہیں روک سکتا۔ بچوں کی تربیت کا اولین ادارہ ماں کی گود ہوتا ہے۔ ضلع قصور کی زینب اور ضلع مردان کی آسماء نے ہمارے معاشرے کے والدین کو یہ پیغام دیا کہ توڑی سی لاپرواہی سے گدھ آپ کے بچوں کو اٹھا کر لے جاسکتے ہیں۔ یہی نہیں بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی ایک نجی تنظیم ساحل کے مطابق پاکستان میں سال 2017کے پہلے چھ مہینوں میں بچوں سے جنسی زیادتی کے 768 واقعات رپورٹ ہوئے۔ جن میں 68 صرف ضلع قصور سے رپورٹ ہوئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).