لندن سے بدلے ہوئے پاکستان تک سفر کی روداد


جہاز

توقع یہ تھی کہ ن لیگ کا شیر اپنی گرج دکھائے گا مگر شیر خاموشی سے ایک وی آئی پی راستے سے ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچا اور استقبال کے لیے آئے ہوئے کارکن انتظار ہی کرتے رە گئے۔ اگرچہ مایوس کارکنوں نے بہادری سے کہا کہ قائد کی سکیورٹی کی خاطر وہ دیدار کے بغیر ہی چلے جائیں گے مگر ان کے چہرے کی مایوسی عیاں تھی۔

اوپر سے اُن کے سینے پر مونگ دلنے پاکستان تحریک انصاف کے کارکن آگئے جنہوں نے اشاروں کنائیوں سے ’چور‘، ’لٹیرا‘ کے باتیں شروع کی جو بگڑتے بگڑتے حسبِ معمول اور حسبِ توقع ماں اور بہن کی غلیظ گالیوں تک پہنچ گئی اور ایک وقت آیا کہ نواز لیگ کے کارکنوں نے بھی اس مغلظات کی جنگ میں شریک ہوگئے۔ اور پھر جب ان کارکنوں کو یہ یقین ہو چلا کہ اب قائد سے ملاقات نہیں ہو گی تو سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ سب سے مایوس پی ٹی آئی کے کارکن گئے جنہیں کالیں کر کے پہلے آنے والوں نے بلایا تھا۔

طیارے میں سوار ہونے پر اندازە ہوا کہ طیارە ایک منی جیل ہے جس میں غیر معمولی سکیورٹی ہے اور اس کی وجہ سے آپ اکانومی سے بزنس یا فرسٹ کلاس، نچلی منزل سے اوپر والی منزل تک نہیں جا سکتے۔ پرواز اڑتے ہی تمام صحافی طیارے کی بزنس کلاس کے منی لاؤنج میں بیٹھ گئے جن میں برطانیہ میں کام کرنے والے پاکستانی چینلز کے چند نمائندگان اور ایک اینکر شامل تھے۔ ان سب کو اس بات کی امید تھی کہ نواز شریف ان سے بات کریں گے یا شاید لاؤنج میں آئیں گے مگر وە نہیں آئے۔

فرسٹ کلاس میں موجود ایک دوست نے بتایا کہ جب مریم نے اپنے والد کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو انھیں بھی عملے نے منع کر دیا مگر بالآخر انھوں نے ایک ویڈیو تیار کی جو بعد میں سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی۔ ابوظہبی میں نواز شریف اور ان کی بیٹی کو پرواز سے اتار کر نیچی ہی کھڑی گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ شروع میں کسی صحافی نے افواە چھوڑی کہ دونوں ایک ہوٹل میں گئے ہیں۔ پھر افواە سنی کہ انہیں پریمیئر اِن میں رکھا گیا ہے، پھر افواە سنی کہ دونوں کو کسی لاؤنج میں رکھا گیا ہے اور اتنے میں رمیضہ نظامی کی تصویر آ گئی کہ دونوں ایئرپورٹ کے ’الدار لاؤنج‘ میں ہیں۔

اب تمام صحافی بزنس لاؤنج میں تھے تو سکوپ کے چکر میں بعض صحافیوں نے بڑے پھیرے لگائے مگر انتظامیہ ٹس سے مس نہ ہوئی اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہ ملی۔ حتیٰ کہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو بھی ملنے سے روکا گیا۔

صحافیوں میں بے چینی بڑھ رہی تھی اور وہ وطن لوٹنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف سے انٹرویو کرنا چاہ رہے تھے۔ بہت گفت و شنید کے بعد طے ہوا کہ رمیضہ اپنے فون سے ایک صحافی کو فون کریں گی جس سے صحافی نواز شریف سے سوال کریں گے اور نواز شریف ان کے جواب اسی فون پر دیں گے جن کی ویڈیو رمیضہ اپنے فون پر ریکارڈ کریں گی۔ انٹرویو کے بعد اب ہمیں لاہور کی پرواز اڑنے کا انتظار تھا۔ مگر کراچی کی پرواز بھی چلی گئی اسلام آباد کی پرواز بھی چلی گئی مگر لاہور کی پرواز کے سامنے گیٹ نمبر ہمارا منہ چڑاتا رہا بورڈنگ نہیں شروع ہو سکی۔

پھر پتا چلا کہ پرواز میں ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر ہے تو ایک سیںیئر اینکر نے کہا ’دیکھ لینا یہ پرواز نہیں جائے گی یہ رات تک یہیں رہے گی۔ ‘

جہاز

خیر ڈیڑھ گھنٹہ گزر جانے کے کچھ دیر بعد بورڈنگ کا اعلان کیا گیا اور سب لوگ طیارے کی جانب گئے۔ بورڈنگ ہو گئی اور سب لوگ طیارے میں بیٹھ گئے تو میاں نواز شریف، عرفان صدیقی، مریم نواز اور ان کے ڈاکٹر طیارے میں آئے۔ دونوں کو بزنس کلاس کے اگلے حصے کی آخری سیٹیوں پر بٹھایا گیا۔

اس پرواز پر ہر ایک صحافی تھا، ہر ایک نے اپنا فون نکالا ہوا تھا اور ہلکی سی آہٹ پر سب بزنس کلاس کی اینٹری پر پہنچ جاتے خصوصاً وہ صحافی جن کو بزنس کلاس کا ٹکٹ نہیں ملا۔ کارکن جن میں سے کچھ دور دراز سے سفر کر کے پہنچے تھے وە بھی نواز شریف اور مریم سے ملنا چاہتے تھے۔

اس شور شرابے کے درمیان طیارے کے عملے نے اپنا کام جاری رکھا اور بزنس کلاس کے دونوں اینٹری پوائنٹس پر دو سکیورٹی اہلکار مسلسل کھڑے رہے جنہوں نے آخری لمحے تک کسی کو آگے نہیں جانے دیا۔ درمیان میں کچھ دیر کے لیے کارکنوں نے نعرے بازی بھی کی اور کوشش کی کہ نواز شریف سن کر آئیں مگر نہ وە آئے نہ کسی کی ملاقات ہوئی۔

اس دوران ایک افواە اڑی کہ ’طیارے میں ایک ایکسٹرا پائلٹ بیٹھا ہوا ہے جو ہم سب کو اتار کر اسے کسی دوسری منزل پر لے جائے گا‘ اور حسبِ توقع یہ افواە ہی ثابت ہوئی۔ مسلم لیگ ن برطانیہ کے صدر ناصر بٹ، نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کو ابوظہبی سے لاہور کی پرواز کے دوران بزنس کلاس میں لے کر گئے جس دوران مبینہ طور پر انہوں نے بعض کاغذات پر دستخط حاصل کیے۔ جن لیگی کارکنوں سے بات ہوئی جو لندن، ابوظہبی میں موجود تھے وہ پارٹی کی موجودە قیادت کے بارے میں کچھ اچھی رائے نہیں رکھتے تھے جبکہ بعض غصے میں تھے۔

جہاز

ایک نے کہا کہ فیصلہ آنے کے بعد ’شہباز شریف کو لیڈرشپ دکھانی چاہیے تھی لیکن وہ تو اپنے پنجاب کے قصیدے پڑھتے رہے‘۔ دوسرے نے آنٹی گورمنٹ کا مشہور مقولہ دہرایا کہ ’یہ بِک گئی ہے لیگی قیادت‘ اور ایک صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ ’آج فیصلہ ہو جائے گا کہ ن لیگ اور شہباز لیگ میں سے کس نے آگے جانا ہے‘۔ مگر اس سارے عمل کے دوران مسلم لیگ ن کے وە کارکن جو اس سفر میں اپنی قیادت کے ساتھ شریک تھے دبے لفظوں میں یہ بات کرتے پائے گئے کہ ’نواز شریف کے جانشین نے حقِ جانشینی ادا نہیں کیا‘۔

اور پھر طیارے نے لاہور کے رن وے پر لینڈ کیا اور جیسے پرواز میں بھونچال آ گیا۔ اکانومی میں سفر کرنے والے صحافیوں نے بزنس کی جانب دوڑ لگائی اور طیارے کا عملہ ان پر چیخنا شروع ہو گیا مگر صحافیوں نے کسی کا نہ سنی۔ طیارے کو اتارنے کے بعد بجائے ٹرمینل پر لگانے کے اسے حج ٹرمینل کی جانب لے جایا گیا جہاں حکومتِ پنجاب کا جیٹ اور ایک ہیلی کاپٹر تیار کھڑے تھے اور طیارے کے ارد گرد سکیورٹی کے سینکڑوں اہلکار تھے جن میں رینجرز، اے ایس ایف اور پولیس کے اہلکار بھی موجود تھے۔ اس کے علاوە سادە کپڑوں میں ملبوس لوگ بھی تھے جن کا تعلق یقیناً مختلف ایجنسیوں سے تھا کیونکہ وہ بار بار مجھے اپنی مہمان نوازی کے بارے میں بتا رہے تھے۔

جہاز

طیارے کا دروازە کھلتے ہی اے ایس ایف کے اہلکار اندر داخل ہوئے اور انھوں نے مسافروں کو نکال کر بسوں میں سوار کرنا شروع کیا۔ دیگر صحافیوں کے ہمراہ میں بھی اندر انتظار کرنا چاہتا تھا مگر ہمیں ان سکیورٹی اہلکاروں نے دھکے دے کر باہر نکالا اور نیچے اترنے کے بعد مجبور کرنے لگے کہ ہم یہاں سے جائیں۔

کچھ دیر انتظار کے بعد نواز شریف اور مریم نواز طیارے سے باہر نکلے اور نکلتے ہی انھیں سکیورٹی اہلکاروں نے اپنے حصار میں لیا اور پھر دھکم پیل شروع ہوئی۔ دھکم پیل کا یہ ہجوم کبھی ایک طرف جاتا اور کبھی رُک جاتا جس کے اندر بات چیت اور بحث جاری رہی۔ مگر نواز شریف اور مریم نواز دونوں اس سلیٹی رنگ کی گاڑی میں نہیں بیٹھے جو اُن کے لیے کھڑی تھی اور کافی دیر تک یہ کشمکش چلتی رہی۔ ایک جانب نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ یہ کشمکش جاری تھی دوسری جانب ایجنٹوں اور سکیورٹی اہلکاروں نے صحافیوں کو زدوکوب کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔

جہاز

کیمرە بند کریں، ویڈیو نہ بنائیں، ہم آپ کو مہمان نہیں بنانا چاہتے، مہمان نوازی کا مزا چکھو گے تو لگ پتا جائے گا وغیرە وغیرە۔ اس دوران ایسا لگ رہا تھا کہ شاید یہ ایک بدلا ہوا پاکستان ہے۔

اور پھر نواز شریف اور مریم ایک سیاە کار میں بیٹھے اور ان کو اس طیارے کے پاس لے جایا گیا۔ پہلے مریم اتریں اور طیارے کی سیڑھی پر کھڑے ہو کر کسی کو اشارە کرتی رہیں کہ وہ اندر آ جائیں۔ بعد میں پتا چلا کہ وە میاں نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کو بلا رہی تھیں جنہیں ان کے ساتھ طیارے پر سوار نہیں ہونے دیا گیا۔

اور پھر طیارە ایک ہیلی کاپٹر کے پیچھے چلتا ہوا پرواز کر گیا۔ اس کے ساتھ ہی اُن لیگی کارکنوں کی امیدیں بھی پرواز کر گئیں جو اس امید پر دنیا بھر سے آئے تھے کہ لاہور ان کے قائد کو شاید بچانے کے لیے امڈ آئے گا۔ نواز لیگ کے ساتھ انتخابات میں کچھ بھی ہو، نواز شریف کی قسمت میں آگے کیا لکھا ہے مگر یہ سفر مسلم لیگ نواز کی کہانی میں ایک تاریخی ٹرننگ پوائنٹ ضرور ہے۔

نوٹ، اس فیچر کے لیے تصاویر، ویڈیوز اور معلومات کی فراہمی کے لیے میں رمیضہ مجید نظامی، اظہر جاوید، مرتضیٰ علی شاە، امداد حسین کا شکر گزار ہوں جنھوں نے اس پرواز کے دوران مختلف طریقوں سے میری مدد کی۔

نوٹ، اس فیچر کے لیے تصاویر، ویڈیوز اور معلومات کی فراہمی کے لیے میں رمیضہ مجید نظامی، اظہر جاوید، مرتضیٰ علی شاە، امداد حسین کا شکر گزار ہوں جنھوں نے اس پرواز کے دوران مختلف طریقوں سے میری مدد کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).