پھر دھماکوں کی گونج، کیا کوئی غفلت ہو رہی ہے ؟


کئی سالوں سے چھائے خوف، بدامنی اور دہشت گردی کے بادل چھٹ جانے کے بعد قوم نے ایک بار پھر سے مسکرانا سیکھا تھا۔ لیکن بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں ہونے والے بے رحم واقعات نے ایک بار پھر فضا کو سوگوار کر دیا ہے۔ قوم کے چہرے پھیلی خوشیاں فکرات میں بدلنے لگی ہیں۔

ماضی میں اہل وطن نے ان خوشیوں کی بہت بڑی قیمت چکائی ہے۔ دہشت گردی کے پے در پے واقعات نے ہر ایک کو غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کر دیا تھا۔ بزدل دشمن درندگی کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے سفاکی کی تاریخ رقم کر رہا تھا۔ مگر پھر ان حالات کے ردعمل نے لوگوں کو متحد کیا۔ پاک فوج کے اوپر ان کا اعتماد بڑھا، فوج نے بھی عوامی امنگوں کے مطابق اپنا کردار ادا کیا۔ افواج پاکستان کی شب و روز محنت، غیر روایتی جنگ کی بہترین حکمت عملی اورعوام کے صبر اور دعاوں نے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانا شروع کر دیا۔ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد میں ملنے والی پے درپے اور طویل المدت کامیابیوں نے ایک بار پھر پاکستان کو عالمی سطح پر ممتاز کر دیا ہے۔

لیکن گزشتہ تین چار دن میں ہونے والے دہشتگردی کے پے در پے واقعات اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ہم سے کہیں غفلت ہو رہی ہے۔ دشمن کو موقع ملنے کا مطلب ہے کہ موجودہ ملکی صورتحال میں یا تو ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں یا ہم دشمنوں سے غافل ہو گئے ہیں حالانکہ الیکشن کے قریب سیکیورٹی اداروں کو مزید چوکس ہو جانا چاہیے تھا۔ جب تک فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اور ان کی نقل و حرکت پر حساس اداروں نے کڑی نگاہ رکھی، ملک میں کوئی تخریب کاری نہ ہوئی۔

اس کے فوائد اور ثمرات پھر ہم نے خود دیکھے۔ ملک میں مکمل قیام امن ہوا۔ مایوس اور خوفزدہ چہروں پر خوشیاں آئیں۔ دیگر ممالک کے اعلیٰ عسکری، سیاسی، سفارتی وفود نے دورے کیے اور مختلف کھیلوں کی ٹیمیں پاکستان میں کھیلنے آئیں۔ یہ عالمی طورپر پاکستان کو پرامن ریاست تسلیم کرنے کا ایک بہترین اعتراف تھا۔

لیکن دشمن نہ پاکستان کی ترقی دیکھ سکتا ہے نہ خوشحالی۔ اسے یہ بات ہرگز قبول نہیں کہ یہاں کے لوگ نارمل زندگی گزاریں، تفریح گاہیں آباد ہوں، بازار پررونق ہوں، دشمن کو یہ سب کچھ ہضم نہیں ہو گا۔ آپ اس بات کو کبھی بھی نہ بھولیں کہ آپ کے ارد گرد دشمنوں کا حصار ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دشمن پر، آپ وار کریں اور وہ، آپ کو معاف کر دے۔ لیکن میں، آپ، سب مل کر اس دشمن کو ناکام بنا سکتے ہیں۔

وہ کیسے؟ یہ سوچنے کی بات ہے!

ہمیشہ یاد رکھیں کہ فوج کتنی ہی جدید اور ماہر کیوں نہ ہو۔ جب تک اس کے ساتھ عوام کا تعاون نہ ہو۔ وہ کچھ بھی نہیں۔ اگر عوامی مدد و حمایت حاصل ہو تو پھر اس اتحاد و اتفاق کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی۔ یہ ریاست، حکمران سب عوام کے مرہون منت ہیں۔ ملک عوام بناتے ہیں۔ اگر عوام میں ہی انتشار و مایوسی پھیل جائے تو پھر سمجھیں کہ دشمن نے کم سرمایہ اور کم وسائل لگا کر بڑے فوائد حاصل کر لیے ہیں۔

آئیں دشمن کو ناکام اور پاکستان کو کامیاب بنائیں۔ نفرتیں ختم کریں اور ایک دوسرے کو قبول کریں۔ مسلکی اختلافات کو اس قدر طول نہ دیں کہ نوبت مخالف فرقے کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے اور واجب القتل قرار دینے تک پہنچ جائے۔

اپنی افواج اور سیکیورٹی اداروں کو اپنا اعتماد دیں۔ انھیں یہ پیغام دیں کہ آپ کی کوششوں، قربانیوں کی ہم قدر کرتے ہیں۔ ہم دشمن کے ہاتھ میں نہیں کھیلیں گے۔ ہم ملک کے دفاع میں اٹھائے گئے ہر قدم پر آپ کے دست و بازو بننے کے لیے تیار ہیں۔

عملی طور پر ریاستی اداروں کے مدد گار بنیں۔ آپ جہاں رہتے ہیں اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر رکھیں۔ ان آستین کے سانپوں کو پہچانیں جو آپ کے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں، مگر وہ آپ کے دشمن ہیں۔ اس علاقے میں کام کرنے والے سیکیورٹی ادارں سے رابطے میں رہیں۔ ہر علاقے میں معلومات دینے کے لیے فوج، رینجرز اور پولیس نے مختلف نمبر دیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کو اپنے پاس محفوظ رکھیں۔ کسی بھی مشکوک سرگرمی کو محسوس کریں تو فوراً اطلاع دیں۔ یہ بات یاد رکھیں! آپ کا قاتل آپ کا دشمن آسمان سے اتر کر نہیں آتا۔ بلکہ انسان کے روپ میں موجود یہ بھیڑے ہمارے اور آپ کے درمیان ہی کہیں موجود ہوتے ہیں۔ بس ان کو بے نقاب کرنا ہمارا کام ہے۔

گاؤں محلے میں موجود افراد کی سرگرمیوں سے باخبر رہیں۔ اگر کوئی کسی نوجوان کے کچے ذہن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی مذہب پسندی کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے اوراسے کسی گمراہی کی جانب لے کر جا رہا ہے تو ایسے افراد کو دشمن کے آلہ کار بننے سے روکنا ضروری ہے۔

علمائے کرام، اساتذہ، پروفیسرز، پنچائتوں کے چوہدری اور جرگوں کے وڈیروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو مایوسی اور افراتفری کی صورتحال سے نکالیں اور انہیں ہمت و حوصلہ دیں۔ یہ بات یاد رکھیں ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ لیکن اصل کام اس مشکل و پریشانی میں صبر و حوصلے کا دامن تھامے رکھنا ہوتا ہے۔

ہمیں عوامی سطح پر ان لوگوں کی اصلاح کے لیے کوشش کرنی ہو گی جو تخریبی ذہنیت رکھتے ہیں۔ جو لوگوں میں نفرت کے بیج بوتے ہیں۔ جو پاکستان کی حکومت اور افواج کے خلاف لوگوں کے ذہنوں میں زہر بھر رہے ہیں۔ یہ معاشرے کے علاوہ سوشل میڈیا پر کرنے کا بہت اہم کام ہے۔

آئیے آج دفاع پاکستان کے کام کو کچھ یوں تقسیم کرلیں۔ افواج پاکستان سرحدوں کی حفاظت کرنے کا فرض انجام دیں، اس کے دفاع کو مضبوط و موثر بنائیں۔ سیاست دان دنیا بھر میں پاکستان کی بہترین سفارت کاری کریں۔ دنیا کے سامنے پاکستان کا مثبت امیج پیش کریں اور گلی محلوں میں تخریب کاری کو اور فتنہ وفساد کو پنپنے سے ہم عوام روکیں۔
الیکشن مہم میں جلسے، ریلیاں اور کارنر میٹنگز کرانے والی پارٹیوں سے گزارش ہے قیمتی انسانی جانوں کی حفاظت کے لئے کچھ احتیاطی تدابیر وہ بھی اپنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).