لال بی بی جان، سبز پوش ٹھیکے دار اور کاغذ کے پرزے


“ںامنظور! ںامنظور ! پرانے الیکشن نامنظور! نئے الیکشن کروائے جائیں ۔ ہمیں پرانی نئی کی جگہ سچ مچ نئی قیادت کی ضرورت ہے۔ ہمارا مطالبہ! الیکشن،الیکشن!”

الیکشن میں جیتنے کے امیدواروں نے عوام’ نام کا ماسک پہنا اور ایک ہجوم پیچھے لگائے’ سڑکوں پر نعرے لگوانے کے لئے خود ہی نکل پڑے۔ یہ ہجوم بھولی بھالی بھیڑوں کا تھا جن کا ہمیشہ سے ایک ہی مقدر ہوتا ہے کہ وہ آنکھوں پر اندھے اعتماد کی پٹی باندھے’ گلے میں رسی ڈلوائے گھسٹتے’ لڑھکتے’ بہتر دنوں کی امید’ میں اس راستے پر بس چلتی ہی چلی جائیں جس پر انہیں لے جایا جا رہا ہو۔

پٹاری کھلی تو اب کی بار اس میں سے کوئی معمولی سانپ برآمد نہیں ہوا۔ ایک بھوکا’ خونخوار’ ظالم’ خود غرض’ اژدھا اچھل کرباہر نکل آیا۔ اس کی باہر نکلتی’ پتلی’ لمبی زبان اور ہیبت ناک حجم کو د یکھ کر بھیڑیں اس کی طا قت کے آ گے جھک گئیں۔

“الیکشن دیوتا! ہم آپ کے غلام ہیں! کہیے آپ کے کھانے کے لئے کیا پیش کریں؟

اژدھا پھنکارا۔

“اچھا اچھا! ابھی لائے !”

لوگوں نے اپنی امیدیں’ آرزوئیں’ خواہشات اور خوش فہمیاں بوٹی بوٹی کر کے خونخواراژدھے کا پیٹ بھرنے کے لیے اس کے آگے پھینکنا شروع کردیں۔ مقابلہ حسب معمول دوپارٹیوں کے درمیان تھا۔ لال پارٹی اورسبز پارٹی کی ایک جیسی طاقت کو دیکھتے ہوئے یہ جانچنا مشکل تھا کہ ان میں سے کون جتبے گی اور کون کم پرخلوص ہے؟ دونوں پارٹیاں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھیں۔

لال پارٹی والے’ روٹی’ کپڑا’ مکان کا نعرہ لگا کر مزدوروں’ کسانوں اورطلباء کی اکثریت کو ساتھ ملا کر الیکشن جیتنا چاہتےتھے اور سبز پارٹی والےمذہبی نظریات کا پرچار کر کے’ جنت میں رہائشی سکیموں کے پراپرٹی ڈیلر ہونے کا دعویٰ کر کے’ عوام کے ووٹوں کی ا کثریت حاصل کرنا چاہتے تھے۔

شہر کے ہر کونے سے الیکشن کی مہم زور و شور سے جاری تھی۔ کہیں بینر لگ رہے ہیں تو کہیں پوسٹر چسپاں کئے جا رہے ہیں۔ کہیں لاوڈاسپیکر پر اشتہار بازی جاری ہے تو کہیں پمفلٹ تقسیم کئے جارہے ہیں۔

چوک کے دونوں طرف’ دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کے بڑی بڑی تصاویر والے دیوقامت بورڈ لگے ہوئے تھے ہرآنے جانےوالا ان کی طرف نظر ڈالنے پر مجبورہو جاتا تھا۔

لال پارٹی کی لیڈر”امی جان تھیں۔ ان کی تصویر بڑی پیاری تھی۔ وہ تصویر میں اپنی مخصوص مسکراہٹ اورسفید دوپٹہ لئے ہر آنے جانے پر ممتا بھری نظریں نچھاور کرتی تھیں۔

جیسے ہی کوئی راہ گیر ان کی تصویر کے آگے رکتا تصویر کہہ اٹھتی۔ “ہیلو بےبی!” اور ایک ٹافی آگے بڑھا دیتی۔

رکنے والا”یس ماما!” کہہ کرٹافی پر بھوکے بچے کی طرح ٹوٹ پڑتا یہ منظرساتھ ہی لگی بورڈ کی تصویر بھی دیکھ لیتی۔ یہ تصویرجو امی بھائی کا سا پوز مارے’ واسکٹ پوش سبز پارٹی کے لیڈر کی تھی وہ فوراً اپنے گنجے سر پہ رنگ برنگی وگ رکھ لیتا۔ اور گانے لگتا۔

“اس میں مونگ پھلی کا دانہ!”
وہ ایک بسکٹ عوام کی طرف بڑھانا۔
“آئی لائک اٹ’ آئی لو اٹ۔” بچہ بچہ خوشی سے جھوم اٹھتا۔

دونوں پارٹیوں نے عوام کو ہرممکن طریقے سے اپنی طرف کھینچنے کے پورے پورے انتظام کررکھے تھے۔

عوام سوچ رہے تھے کہ کس راستے کو منتخب کیا جائے۔ دونوں راستے ہی خوش آئند مستقبل کی امیدوں کے وعدوں کی پھول پتیوں سے مزین اورخوشنما نظر آتے تھے روشنیوں کے قمقموں سے جگمگا تے’ آنکھیں خیرہ کئے د تیے تھے۔

“بیوقوفو ! ہاتھوں میں ہاتھ ڈالو’ گیت گاتے ہوئے ہمارے بتائے ہوئے راستے پہ چل نکلو”۔

دونوں لیڈر انہیں اپنی بات سمجھانا چاہتے تھے اوردام الفت میں پھنسانا چاہتے تھے۔

چوک کے بیچوں بیچ بنے’ گول راوَنڈ اباوَٹ کے سرپہ تو ہری ہری جھنڈیاں لہرا رہی تھیں لیکن گھیرے پہ ابھی تک کسی نے کوئی اشتہار بازی نہیں کی تھی۔ گھیرا خالی تھا۔

“چل بھئی ادھر لگا دے !”

لال پارٹی کے کارکنوں نے پوسٹرچپکانے والے کو اشارے سے بتاہا۔

پوسٹر چپکانے والا لئی کی بالٹی اٹھا کر گھیرے کے قرپب جا بیٹھا اور جلدی جلدی ایک کے بعد ایک ‘امی جان دوپٹے والی’ کی فوٹو والے پوسٹر چپکانے لگا۔

اس کے تن بدن میں ان دو سو روپوں کی امید ہلچل مچا رہی تھی جو اسے شام کو اس اوورٹائم جاب کے بعد ملنے تھے۔ وہ خوشی خوشی بڑے اہتمام سے گھیرے کے گلے میں پوسٹروں کا ہار پہنا رہا تھا کہ یکدم کسی نے ایک ٹھوکر مار کر لئی کی بالٹی اوندھی کر دی۔

اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔
سبز پارٹی کا ایک کا رکن اسے گریبان سے پکڑ چکا تھا۔
“تیری یہ مجال! سرخ بیلچے جیسی شکل والے۔ میں ابھی تجھے بتاتا ہوں کہ یہاں کس کے پوسٹر لگیں گے!”

اس نے مریل سے دو سو روپے کے امیدوار کو’ تھپڑ اور گھونسے رسید کرنے شروع کر دئیے۔

سبز پارٹی کے کارکنوں سے بھری پجیرو میں سے موٹے موٹے سانڈ یکے بعد دیگرے اترنے لگے۔ ان کی موٹی موٹی کمروں کےارد گرد لمبے لمبے ‘لوہے کے گرز بندھے ہوئے تھے جنہیں انہوں نے اترتے ہی ارد گرد گھمانا شروع کر دیا۔

“تمہاری یہ جرات! ہماری جگہ پہ اپنے پوسٹر!”

اب کی بار ایک دوسرے نے بھی اسے پٹینا شروع کر دیا۔

“معاف کر دیں’ مائی باب! میں بال بچے دار آدمی ہوں” وہ چلاتا رہا لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی ۔

اس نے ہاتھ پاوَں جوڑ دئیے’ منتیں کیں۔ لیکن انہوں اسے اتنا مارا کہ وہ بھی لئی کی بالٹی میں سے باہر گری ہوئی لئی بن گیا۔

“ملعون !جا’ ہم تجھے جنت کے پلاٹوں کی ہاوسنگ سکیم میں پلاٹ دینے سے انکار کرتے ہیں۔ خدا تجھے کبھی معاف نہیں کرے گا!”

ایک باریشں’ سبز پارٹی کے ورکر نے’ اس کے سینے کی طرف انگلی سے ایسی لیزر بیم پھینکی کہ اس میں سے نکلتے شعلے نے پوسٹر چپکانے والے کو بھسم کر کے ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا۔

“آیا پی نٹ کا زمانہ! اس میں مونگ پھلی کا دانہ!”

واسکٹ پوش لیڈر اپنے بورڈ میں سے مسکرا مسکرا گانا شروع کر دیا۔

سبز پارٹی والوں نے” امی جان سر پہ دوٹپہ لینے والی’ کے سارے پوسٹر اتار پھینکے اور اس کی جگہ اپنے محبوب لیڈر کے پوسٹر لگانے شروع کر دئیے۔”

اب ان کا کارکن اپنی لئی کی بالٹی اٹھا کر اپنے دو سو روپے انعام کے خواب دیکھنے میں مصروف’ جلدی جلدی کام نپٹانے لگا۔

کتنا اچھا نظارہ تھا۔ سر سبز’ خوبصورت’ خوشنما گھاس پہ لہراتی’ ہری ہری چوڑیوں جیسی بانکی ہری جھنڈیاں’ ناچ’ گا رہی تھیں۔

“ٹھہرو! یہ پوسٹر بازی نہیں ہو سکتی! تم نے ہمیں سمجھا کیا ہے؟ کیا ہم نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں’ تمہاری یہ مجال کہ ہمارے ورکر پہ ہاتھ اٹھاوَ”۔

ایک دوسری پجیرو سر پہ آن کھڑی ہوئی تھی اور اس میں سے بد صورت تھوتھنیوں والے سور اترنے لگے۔

ان کی آنکھیں اپنی متوقع جیت کےخمار سے نشلیی ہو رہی تھیں ۔ اور ان کی ہاتھوں کی جگہ کلاشنکوفیں اگ آئی تھیں۔

گرز اور کلاشنکوفیں بوس و کنار میں مصروف ہو گئیں۔

سانڈوَں اور سوَروں نے ایک دوسرے کونیچا دکھانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگا دی۔

“ساتھیو! کامریڈو! میں تمہیں جنت تو کیا اس زمین پر پلاٹ لے کر دوں گی! جو زیادہ مشکل کام ہے!”

امی جان دوپٹے والی اپنے بورڈ میں سے چیخ چیخ کر بولنے لگیں۔

“کفر بکتی ہے یہ! ناہنجار’ مفرب زدہ عورت!”

باریش سبزپوش ورکر واسکٹ والے لیڈر کے سر پر ہاتھ رکھ کرگلا پھاڑنےلگا۔ ایک سانڈ اور ایک سوَر لڑتے لڑتے زمین پہ ڈھیر ہو چکے تھے۔ دونوں کے جسموں سے رسنے والا مٹیالے رنگ کا خون پیاسی زمین پر بہہ کردھیرے دھیرے’ اس میں جذب ہونے لگا دیکھ کر یہ کہنا مشکل تھا کہ خون زیادہ پیاسا تھا کہ زمین۔

“دیکھو بھائیو! یہ بات ٹھیک نہیں!” سانڈوں سئوروں کے جتھے میں سے ایک ایک بندہ آگے کو بڑھا۔

ہم دونوں پارٹیوں نے ایک ایک ورکر گنوا دیا لیکن چلو کوئی بات نہیں۔ ورکر تو اور مل جائیں گے۔ پوسٹر لگانے کے لئے اس سے بہتر گول چکر کا گھیرا ہمیں نصیب نہیں ہو گا۔ اس لئےکیوں نہ ہم دونوں پارٹیاں ہی کچھ سمجھوتے والی بات کر لیں۔ آپس میں ہی معاملہ طے کر لیں’ تا کہ وقت ضائع نہ ہو۔ دیکھو نا شام پڑنے والی ہے’ اور پھر شام ضائع تو نہیں کرنی نا!”

اس نے شرارت سے آنکھ ماری۔ دوسرے سب لوگ ہنس پڑے۔” کتنی اچھی بات کر رہے ہیں بھائی جان آپ! صلح صفائی بہت پیاری چینر ہے کہے کیا کریں؟” گرز والے نے اپنا گرز فولڈ کر کے رکھ دیا۔ کلاشنکوف کے ہاتھ والے کی کلاشنکوف بھی یکایک یوں جھڑ گئی جس طرح سگریٹ سے بجھتی ہوئی راکھ جھڑ جاتی ہے۔

“آئیے بھائی جان’ گلے ملتے ہیں اور ایسا کرتے ہیں کہ آدھا گھیرا آپ لے لیں اور آدھا ہم۔ دونوں اچھے اچھے بھائی’ مل مل کر’ پیارے پیارے پوسٹر لگوا لیتے ہیں ٹھیک ہے نا!”

“ٹھیک ہے! ٹھیک ہے بھئی” دونوں پارٹیون نے تالیاں بجانی شروع کر دیں۔

“بھائی جان! ان دونوں کا کیا کریں!”

ایک نے دوسرے سے پوچھا اور دونوں چپکانے والوں کی لاشوں کی طرف اشارہ کیا ۔

“یار بور نہ کر خود ہی کارپوریشن والے لے جائیں گے صبح کوڑے کے ساتھ !”

“چلو بھئی پوسٹر لگواوَ۔ پھر جا کر اچھی سی چائے پیتے ہیں!”
اب دونوں پارٹیوں کے پوسٹروں سے گول چکر کا گھیرا سج چکا تھا۔
دونوں پارٹیوں والے ہاتھ ملا کر شب بخیرکہہ کر جا چکے تھے۔

“ادھر آ! کہاں مر جاتا ہے! میرے ساتھ رہا کر۔!”
بوڑھی افغانی دادی نے اپنے سات آٹھ سالہ پوتے کو کوڑے کےڈھیر میں سے ایک ٹوٹا ہوا کھلونا چنتے ہوئے دیکھ کر آواز دی۔

آج کل کتنے اچھے دن ہیں۔ ٹھیک ٹھاک دیہاڑی لگ جاتی ہے۔ چالیس روپے من کے حساب سے بھی کاغذ چن کر لے جاوَ تو پچاس ساٹھ تو بن ہی جاتے ہیں۔

بوڑھی دادی نے دل ہی دل میں سوچا اور اپنے کھلنڈرے پوتے کی طرف دیکھنے لگی۔ صبح صبح کام کا وقت ہوتا ہے مگر یہ بچہ کہنا نہیں مانتا، بس کھلینے کی دھن سوار رہتی ہے اس پر۔

“دادی ٹھیک ہے؟”

اس کے میلے کچیلے ننھے پوتے نے گول چکر کے ارد گرد کے گھیرے پہ لگے لال اور سبز پوسٹروں پہ نظر ڈال کراجازت مانگی۔

“ٹھہر جارے شیطان! تجھ سے اکیلے بھلایہ کام کہاں ہوگا۔ میں بھی تیرے ساتھ لگوں گی تو کچھ بنے گا نا!”

دادی خوشی اور فخرسے اپنے پوتے کی نئی دریافت پہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔ اپنا بڑا سا جھولا لٹکا کر اس کے پاس چلی آئی اور دونوں نے مل کر جلدی جلدی گھیرے پر چپکے کاغذوں کے ٹکڑے نوچ نوچ کر اپنا جھولا بھرنا شروع کردیا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).