ہارن آہستہ بجائیں، قوم سو رہی ہیں


پاکستان کی سیاسی جماعتوں، عوام اور میڈیا کو سیاسی رہنماؤں کی ازدواجی زندگی کی انتہائی ذاتی اور غیر اہم تفصیلات کی ٹوہ لگانے سے فرصت مل گئی ہو تو انہیں یہ بات یاد دلانا ضروری ہے کہ پاکستانی جمہوریت کی نامکمل تصویر میں رنگ بھرنے کے لئے نئے انتخابات سر پر آن پہنچے ہیں، اگر ماضی کی طرح ان انتخابات کی عصمت پر بھی دھاندلی کے داغ لگ گئے تو جمہوری عمل سے قوم کا اعتبار مکمل طور پر ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے۔

سیاسی اشرافیہ نے باہمی گٹھ جوڑ کر کے کاغذات نامزدگی کا جو سرسری حلف نامہ تیار کیا تھا اسے سپریم کورٹ نے تفصیلی حلف نامے میں تبدیل کر کے عوامی احتساب کے لئے امید کی پہلی کرن روشن کی ہے۔ اس پر سپریم کورٹ، سول سوسائٹی اور میڈیا مبارک باد کے مستحق ہیں لیکن حقیقی جمہوریت کے حصول کی خاطر یہ پہلی لڑائی تھی جس میں عوام کو کامیابی تو ملی لیکن ابھی اصل جنگ باقی ہے۔ الیکشن کمیشن شروع میں تو عوامی نمائندوں کے حلف ناموں کی تفصیلات اپنی ویب سائیٹ پر ڈالنے سے گریز کرتا رہا تاہم عوامی دباؤ کے نتیجے میں انہیں اعلان کرنا پڑا یہ تمام تفصیلات وہ اپنی ویب سائیٹ پر شائع کر یں گے تاکہ تمام تر معلومات تک عوام کی رسائی ہو سکے۔

حقیقی جمہوریت کے حصول کے لئے اگلا مرحلہ ووٹر کی ایسی شناخت ہے جس میں “ایک شہری، ایک شناخت، ایک ووٹ” کی منزل حاصل کی جا سکے اور جعلی ووٹ بھگتانے والوں کا احتساب کیا جا سکے۔ یہ بہت اہم سوال ہے کہ کیا الیکشن کمیشن ایسے اقدامات لے گا جس کے ذریعے ووٹر کی شناخت ووٹ کی پرچی دینے سے پہلے ہو سکے؟

انتخابی فہرست کو شناختی کارڈ کےساتھ منسلک کرنا دھاندلی کو روکنے اور”ایک شہری، ایک شناخت، ایک ووٹ” کی جانب پہلا کامیاب قدم تھا لیکن انتخابات والے دن ریٹرننگ افسر کی زنبیل میں بہت سے ایسے جادوئی عمل ہوتے ہیں جو نتائج پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ ریٹرننگ افسر سے اس کی جادوئی زنبیل واپس لینے اور اس کے اختیارات فقط انتظامی معاملات تک محدود کرنے کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ انتخابات والے دن ووٹر کی شناخت کو بھی یقینی بنایا جائے اور انتخابات کے بعد اگر معاملات تحقیقات کے لیے ٹریبونل میں جائیں تو وہاں بھی ووٹ کی تصدیق کا عمل باآسانی ممکن ہو سکے۔

اس بنیادی مسئلے کو حل کرنے کے لئے پچھلے انتخابات میں مقناطیسی سیاہی کا ناقص فارمولا آزمایا گیاتھا جو ناکام ہوا کیونکہ پچاس فیصد انگوٹھوں کے نشانات مشین پڑھ ہی نہیں پائی تھی۔ موجودہ انتخابات میں یہ تجویز زیرغور رہی کہ ووٹر لسٹ سے قومی شناختی کارڈ کے آخری تین ہندسے حذف کر دیے جائیں اور الیکشن والے دن پولنگ سٹاف انہیں ہاتھ سے پر کرے۔ یہ تجویز بھی بہت سی وجوہات کی بنا پر ناقابل عمل تھی کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے دوران تمام سیاسی جماعتوں کو ووٹر لسٹیں فراہم کی گئی تھیں جن پر ہر ووٹر کا مکمل شناختی کارڈ نمبر لکھا تھا۔ اس تجویز کے تحت دھاندلی کرنا جتنا آسان ہوتا اسے پکڑنا اسی قدر مشکل ہوتا۔دھاندلی کا آسان رستہ یہ تھا کہ کسی بھی حلقے کےڈھیر سارے ووٹروں کے شناختی کارڈ نمبر اکٹھے کر کے ریٹرننگ افسر کو ساتھ ملا لیا جائے اور ہر ووٹر کے شناختی کارڈ نمبر کے آخری تین ہندسے ووٹر لسٹ پر درج کر کے اس کا ووٹ ڈال دیا جائے تاکہ انتخابات کے بعد اس حلقے کی جانچ پڑتا ل کے دوران دھاندلی کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ الیکشن کے دن ووٹر کی تصدیق مقناطیسی سیاہی کے ذریعے ہو گی، شناختی کارڈ کے تین ہندسے حذف کر نے والی تجویز کے تحت ہو گی یا کوئی اور طریق کار اپنایا جائے گا۔ الیکشن میں چند ہفتے باقی ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی پراسرار خاموشی آنے والے دھاندلی کے طوفان کا پیش خیمہ دکھائی دیتی ہے!

اس کے علاوہ ایک بہت اہم معاملہ پاکستانی میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کر پایا حالانکہ اس حوالے سے ہمیشہ دھاندلی ہوا کرتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل الیکشن کمیشن اور نادرا حکام نے بتایا تھا کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فوت ہو جانے والے سات لاکھ افراد کے نام انتخابی فہرستوں سے خارج کئے گئے ۔ عالمی اداروں کے مطابق پاکستان میں شرح اموات تقریب تقریباً 7.5 فی ہزار سالانہ ہے۔ اگر اس شرح کو تسلیم کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ 2013 سے 2018 کے درمیان 37 لاکھ 50 ہزار افراد کی اموات ہوئی ہیں۔ گویا انتخابی فہرستوں میں ابھی تک بھی تیس لاکھ وفات پانے والوں کے ووٹ درج ہیں جن سے زندہ لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ 2013 کی ووٹر لسٹوں کی گھر گھر جا کے تصدیق ہوئی تھی جبکہ 2018 تک الیکشن کمیشن پانچ سال میٹھی نیند سویا رہا اور لوگوں کے گھر جا کے ان کے آرام میں مخل نہ ہوا۔

لگ بھگ 65 لاکھ سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ بھی اسی فہرست میں موجود ہیں جن کو ایک سازش کے تحت “وقت کم اور مقابلہ سخت” کے مصداق اس بار بھی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیاہے۔یہ سمندر پار پاکستانی اس الیکشن میں بھی ووٹ ڈالنے سے محروم رہیں گے لیکن ان کے ووٹ جینوئن پاکستانیوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوں گے کیونکہ وہ ان کی جگہ ووٹ ڈال کر انتخابی نتائج میں مرضی کا ردوبدل کر سکیں گے۔

حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ انتخابات کے دن ووٹر کی تصدیق اور بعد از انتخاب جعلی ووٹر کے احتساب کے سلسلے میں الیکشن کمیشن یکسر خاموش ہے حالانکہ انتخابی عمل کی شفافیت پر عوام کا اعتماد قائم رکھنے کے لئے یہ دونوں عوامل اشد ضروری ہیں۔ پچھلے انتخابات میں عبدالحمید جتوئی نامی شخص نے 310 ووٹ ایک ایسے پولنگ سٹیشن پر کاسٹ کیے تھے جو خواتین کے لیے مخصوص تھا۔ ایسی بہت سی مثالیں سامنے آئی تھیں لیکن کسی ایک کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہوئی۔ اگر الیکشن کمیشن “ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم” بنا رہا اور سیاسی جماعتیں اور میڈیا بھی غیرضروری معاملات میں مصروف رہے تو 2018 کا الیکشن بھی الزامات کی آندھیوں اور شکوک کے طوفانوں کی زد میں رہے گا اور ان انتخابات کے نتیجے میں زمام اقتدار سنبھالنے والی سیاسی جماعت کمزور اخلاقی جواز کی وجہ سے بڑے فیصلے نہیں کر پائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).