پاکستان ایسی طاقت اور وسائل رکھ کر بھی لاچار کیوں ہے؟


ہیت مقتدرہ کے اداروں نے جو سیاسی ڈرامے تشکیل دینے شروع کیے ہیں بطور ڈائریکٹر انہوں نے کوئی فلم ہٹ اور کسی کو فلاپ کرانا مقصد بنایا ہے تو اس کے خطرناک نتائج برامد ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ہم تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں اسی زبردستی کا نتیجہ ہے کہ پی ٹی ایم پٹھانوں کو مظلوم کہہ رہی ہے تو پرو پاکستانی سراج رئیسانی کے خون ناحق پر بھی کچھ لوگ بلوچوں کی غیرت کو للکارتے رہے کہ اور دیں پاکستان کا ساتھ۔ کراچی میں مہاجر کارڈ۔ سرائیکی وسیب کی محرومی نے سرائیکیوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کشمیر والے کہتے کہ ہمیں الگ ریاست بننا ہے۔ گلگت والے کہتے کہ ہمارے الگ تشخص کو آزاد کشمیر کے اوپر تھوپا جا رہا ہے۔ پنجابی کہتے کہ نواز شریف کو پنجابی ہونے کی سزا مل رہی ہے۔ غرض گروہ در گروہ تقسیم در تقسیم ہے ڈاٰریکٹرز کو سوچنا ہو گا کہ اگر اسی طرح اپنے چہیتے سٹارز کو ہیرو اور دیگر کو ولن بنانے کی روش برقرار رہی تو وہ دن دور نہیں کہ ہماری سینما انڈسٹری زبوں حالی کا شکار ہو جائے گی۔ ادھر ملک میں مذہبی شدت پسند لبرل شدت پسندوں کے بعد سیاست بھی شدت پسندی کا شکار ہو چکی ہے

ملک میں جاری الیکشن گہما گہمی نے اس شدت پسندی کا گھڑا بیچ چوراہے پر پھوڑا ہے۔ اک طرف الیکشن کی گہما گہمی ہے تو دوسری طرف ٹوٹی ہوئی کمر والے دہشت گرد پھر سے زور پکڑ رہے ہیں۔ اس معاملے پر بھی آپ کو تقسیم دکھائی دیتی ہے اک طبقہ اس دہشت گردی کے پیچھے بھارت اور را کا ہاتھ بتاتا ہے تو اک طبقے کا ماننا ہے کہ جب شدت پسندوں پر شکنجہ کسنے کی بجائے ان کو الیکشن پروسیس کا حصہ بنایا جائے فورتھ شیڈول کے لوگ الیکشن امیدوار بن جائیں دہشت گردوں کے ترجمان ٹی وی انٹرویوز دینے لگیں نورین لغاری جیسی دہشت گرد معاون قوم کی بیٹی قرار دی جائے تو پھر باہر سے آ کر بھارت اور را کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ طالبان کے ساتھ ساتھ اب ملک میں داعش کا نام بھی لیا جانے لگا ہے بلکہ داعش نے تو مستونگ حملے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے کیا کر رہے ہیں ہم طالبان کا قلع قمع کرنے نکلے تھے اور دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن میں داعش کو مستحکم ہونے کا موقع کیسے ملا ؟

ادھر عالمی سطح پر بھی ہم تقسیم کا شکار ہیں چند اک بھروسے مند دوست ممالک کا ساتھ تھا اب وہ بھی ہم پر اعتماد کرنے سے کترانے لگے ہیں جس کی حالیہ مثال پاکستان کا گرے لسٹ میں شامل ہونا ہے۔ پہلے پہل دوست ممالک کی بدولت ایسا نہیں ہو سکا مگر ملک میں جاری اک اور تقسیم سول ملٹری تقسیم کے چلتے خواجہ آصف کے اک ٹوئیٹ نے معاملہ بگاڑا اور ترکی نے ہاتھ کھینچ لیا اور ہم دنیا میں ناقابل اعتبار ٹھہرے۔ ان حالات میں سوال تو بنتا ہے نہ کہ اک ایسا ملک جس کے پاس چاروں موسم ہوں زرخیر رقبہ ہو دنیا کا ساتواں بڑا نہری نظام ہو وہاں کے باشندے بھوک کے مارے خود کشیاں کر رہے ہوں بچے بیچ رہے ہوں اک ایسا ملک جہاں معدنیات کے ذخائر ہوں سینڈیک ریکوڈک جیسی سونے اور کاپر کی کانیں ہوں گلیشئیر ہوں دریا ہوں اور پھر بھی وہ خشک سالی کا شکار ہو اک ایسا ملک جس کے پاس سرسبز میدان ہوں ہمہ قسمی درختوں پر مشتمل جنگلات ہوں اور وہاں موسمی شدت ہیٹ ویو سے اک ہی دن ہزاروں افراد لقمہ اجل بن جائیں اک ایسا ملک جس کے پاس آسکر سے لے کر نوبل پرائز تک ہر ایوارڈ موجود ہو اور اس کے پاسپورٹ کی وقعت تیسری دنیا کے غریب ترین ممالک سے بھی کم تر ہو

اک ایسا ملک جہاں دنیا کے مانے ہوئے کھلاڑی ہوں جو ورلڈ چیمپئین رہ چکا ہو اور اس میں عالمی کھیلوں کے مقابلے نہ ہو پا رہے ہوں اک ایسا ملک جس کے پاس دنیا کی دس بڑی فوجوں میں اک فوج ہو جس کے پاس دنیا کی نمبر ون جاسوس ایجنسی ہو جس کے پاس ایٹم بم ہو اور اس ملک کے لاکھوں افراد ان پڑھ جنگلی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہو جائیں اک ایسا ملک جس کے فنکاروں کا دنیا بھر میں نام ہو جس کے موسیقاروں کو دنیا کی یونیورسٹی میوزک و شوبر نصاب کا حصہ بنائیں جن کے فنکاروں پر تھیسز لکھے جائیں اس کی سینما انڈسٹری دشمن ملک کی فلموں کے سہارے ٹکی ہو جس ملک میں موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی تہزیبیں پنپی ہوں جس ملک میں دنیا کی ناف کہلائے جانے والا شہر ملتان موجود ہو اس ملک کے پاس مقامی ہیرو کے نام پر بیرونی حملہ آوروں کے خود ساختہ گھڑے گئے کارنامے ہوں تو اس سب میں قصور کس کا ہے۔ ؟ اس تقسیم کا ذمہ دار کون ہے؟ اور حالات کو اس نہج تک پہنچانے کے پیچھے کا مقصد کیا ہے؟ کیا ہم نے کبھی ان سوالوں کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کیا کوئی اس کی ذمہ داری لے گا

کیا کوئی جواب دہ ہو گا ایسا کیوں ہے کہ دھنیا چوری کے الزام میں اک شخص اٹھارہ اٹھارہ سال قید کاٹے اور دوسرا قتل کر کے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے مقتول کی غربت کا مذاق اڑاتا آزاد ہو۔ کیا کوئی سوال پوچھنے کی جسارت کرے گا کہ جب آپ کے خود کے ادارے میں اٹھارہ لاکھ کیس پینڈنگ پڑے ہوں اور آپ کس جواز کی بنا پر ڈنڈا لے کر دوسرے اداروں کو ٹھیک کرنے نکل پڑے ہیں۔ اک ادارے جس میں ضمانت کے مچلکے رشوت کے بغیر منظور نہ ہوتے ہوں وہ عوام کے لیے خون بہانے والے محکمہ پولیس کی کھڑے کھڑے بے عزتی کر دے کہ یہ رشوت خور ہیں۔ کیا اس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز موجود ہے اگر ہے تو اس کا دہرا معیار کیوں ہے غریب کا جرم جرم اور امیر کا جرم فیشن کیوں گردانا جاتا ہے

اک ایسا ملک جو ہر لحاظ سے آئیڈیل ہو وہاں ریاست کے کسی اک بھی پہلو سے امید کی کوئی اک کرن بھی نظر نہ آتی ہو تو یہ کس کا قصور ہے صولت مرزا اپنے آقاؤں کے نام چیختے چیختے پھانسی پر جھول گیا درجنوں خاندانوں کے چراغ گل کرنے والا لیاری کا گینگسٹر عزیر بلوچ ریاست کا مہمان کیوں بنا ہوا ہے ریاست اس کے گناہوں کا حساب کب لے گی اس کے کرم فرماؤں پر کون ہاتھ ڈالے گا اک گلی کے غنڈے غلام رسول چھوٹو نے تین دن تک ایٹمی طاقت کو انگلیوں پر نچائے رکھا اس کٹھ پتلی کی ڈوریں ہلانے والوں کو کب پکڑا جائے گا

لے دے کے جو نواز شریف کو پکڑا ہے نہ تو یہ بھی چند دنوں میں اڑن چھو ہوتے نظر آتے ہیں ن لیگ کو دیوار سے لگانے کی عجلت میں جس طرح بچگانہ فیصلے عائد کیے گئے ہیں وہ عالمی طاقتیں ہضم نہیں کر پائیں گی اس کے نتیجے میں ڈکارے گئے اربوں روپے میں سے اک روپیہ واپس ہو گا اور نہ ہی مضبوط لابی رکھنے والا نواز شریف زیادہ دیر سلاخوں کے پیچھے رہے گا مختصر کل ملا کے صورت حال یہ ہے کہ جتنا ہمیں قدرت نے نوازا ہے اتنا ہی یہاں پست معیار زندگی ہے۔ میری ریاست اور ریاستی اداروں سے دست بدستہ گزارش ہے کہ خدا کا واسطہ اب بس کر دیں یہ ملک اب مزید تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا دعا ہے کہ خدا کرے میری ارض پاک پہ اترے وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).