مالی منفعت کے لئے بنائے گئے مدارس میں بچوں کی زندگی کی تباہی


بھارت میں مدارس اسلامیہ کو دین کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت برمبنی بھی ہے کہ برٹش سامراجیت کے دور سے آزادی تلک، پھر اس کے بعد ملک کی آزادی سے تادم تحریر مدراس اسلامیہ نے قلیل وسائل کے باوجود بلکہ بے سر و سامانی کے عالم میں ملک وملت کے لئے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ عظیم کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ حق و باطل کی کشکمش میں سینہ سپر ہوکے بلاخوف و خطر مقابلہ کیا ہے۔ اور باطل کو سرنگوں کرکے حق کا سربلند کیا ہے۔ اسلام مخالف طاقتوں کی ریشہ دوانیوں، سازش اور پروپیگنڈوں کو بے نقاب کرتے ہوئے اس کا مسکت جواب دیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ اسلامی شعار و منہج کو فروغ دیا ہے۔ قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں عام کی ہیں۔

معترضین مشترقین اور نکتہ چینوں کے وقت بے وقت بیجا اعتراضات، بے تکے سوالات کا دندان شکن جوابات دینے کے لئے سیکڑوں ہزاروں مبلغین، اسکالر اور دین مبین کے داعی و اسکالرتیار کیا ہے۔ مگر ایسے مداراس چند ہی ہیں جس کا شمار انگلی پر بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ البتہ مدارس اسلامیہ سے گزرتے وقت کے ساتھ ایسے بھی فضلائے مدارس فارغ ہوئے۔ جن کی تعلیم و تربیت میں کمی رہ گئی یا یہ کہ مدارس کے ارباب اہتمام نے اپنے یہاں زیر تعلیم قوم و ملت کے نوجوانوں کی روشن تر مستقبل کے لئے کامیاب تجربہ اور کوششیں نہیں کرسکے۔ لہذا اسی کا نتیجہ ہے کہ ہر تعلیمی سال کے اختتام پر ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے بلند و بالا فلک بوس عمارتوں والے مدارس اسلامیہ سے ایسے فارغین کی کھیپ تیار ہورہی ہے جو علم سے بے بہرہ تربیت سے عاری حالات کی نزاکت سے بے خبر اور گمان و یقین کے تذبذب میں ہچکولے کھاتا ہوا کیفیت میں مبتلا ہیں۔

بنیادی مکتب کی تعلیم سے لے کر فضیلت یا عالمیت نصاب کی تکمیل تک تقریبا 15 سال تک مدرسہ میں رہ کر علوم اسلامیہ پر دسترس اور ملکہ حاصل کرنے کے نام پر ان فارغین مدارس میں بیشتر کے ہاتھ خالی ہوا کرتے ہیں الا ماشاءاللہ استثنائی طور پر چند باکمال اور باصلاحیت ہر جگہ اور ہر ادارے میں پائے ہی جاتے ہیں ان فارغین مدارس کی نیند تب کھلتی ہے ہوش اس وقت آتا ہے جب انہیں مادی ضروریات کی تکمیل اور معاشی بحران کا سامنا ہوتا ہے۔ پھر یہ ادھیڑبن کی حالت میں بالکہ اضطراری کیفیت میں غلط صحیح قدم اٹھاتے ہیں ان میں سے جو قدرے ہوشیار ہوتے ہیں وہ چھپر ڈال کر جامعہ کی سنگ بنیاد رکھتے ہیں اور بالکل بودے قسم کے ایک دو فارغین مدارس کی مدد سے حصول چندہ پر سارا زور صرف کرتے ہیں

ان فارغین مدارس میں جو کہ علمی صلاحیت کی کمی کی وجہ سے خوار ہورہے ہوتے ہیں پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے ان کو گوشئہ عافیت کی تلاش رہتی ہے اور نو بنیاد شدہ جامعات کے ہوشیار نظماء اور ارباب مدارس کے کام آتے ہیں۔ ان غیر ذی استعداد فارغین مدارس کے ذمہ اولین کاموں میں سے ایک ملک کے بڑے شہروں میں قائم مکان نما مدارس کے لئے بچے اکٹھا کرنا اور انہیں مدرسہ تک پہونچانا بھی شامل ہے۔ مشاہدات کے مطابق مدارس اسلامیہ میں بغرض تعلیم داخل ہونے والے طلباء مدارس میں بہار، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کی اکثریت ہے۔ گزشتہ دو دہائی سے سال بہ سال مدارس کے بڑھتے تعداد کی وجہ سے ارباب مدارس کو برائے نمونہ بھی بچہ ملنا مشکل ہورہا ہے۔

دراصل ملک کے کئی ترقی پذیر ریاست اور بڑے شہروں میں قائم چھوٹے بڑے ہزاروں ایسے مدارس ہیں جہاں تعلیم چھوڑ کر روٹی کپڑا اور وظیفہ کی فراوانی ہے۔ دراصل یہ وہ مدارس ہیں جن کا ایجنڈا قوم کو تعلیم یافتہ کرنا نہیں بالکہ اپنے قائم کردہ ٹرسٹ اور فاونڈیشن کے لئے اہل خیر حضرات سے زیادہ سے زیادہ رقومات اینٹھنا ہے۔ لہذا اس کی مجبوری ہے کہ وہ اس کے لئے اپنے کتابچہ یا سالانہ رپورٹ میں طلباء کی تعداد مبالغہ کے ساتھ دکھائے چونکہ حصول چندہ کے لئے طلباء کی تعداد اہم ہے۔ شوال ماہ میں بہار مغربی بنگال اور جھار کھنڈ سے سفید کرتا پائجامہ میں ملبوس جو ننھے منھے بچے غول در غول ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں وہ ان ہی مدارس کے لئے لیجائے جارہے ہوتے ہیں۔ ان مدارس کے عالم نما کانٹریکٹر بچوں کو سنہرے خواب دکھاتے ہوئے ان کی زندگی برباد کردیتے ہیں۔

بہار مغربی بنگال اور جھار کھنڈ کی مجموعی غربت پوری دنیا پر عیاں ہے۔ یہاں آباد لاکھوں مسلمانوں کی معاشی حالت ابتر ہے۔ روزگار کے ذرائع نہیں ہونے کے سبب بیشتر گھروں اور خاندانوں کے مرد حضرات تلاش معاش کے لئے ہجرت کرتے ہیں اور سال سال گھر سے باہر رہتے ہیں۔ غربت ہی کی وجہ سے کئی بڑے شہروں کے امراء کی نظر بد ان ریاستوں پر رہتی ہے۔ اس طرح کی خبریں متواتر اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ 15 سالہ دوشیزہ کی شادی 50 سالہ مرد سے کردی گئی۔ یہ پچاس سالہ مرد انہیں ہی بڑے شہروں کے روسا اور امراء ہوتے ہوتے ہیں۔ جو یہاں آکر شادیوں کی آڑ میں غربت زدہ دوشیزہ کا ہر طرح سے استحصال کرتے ہیں۔

اب دنیادار قسم کے مدارس کے منتظمین کی نظر بھی ان علاقوں کے ننھے منھے بچوں پر ہے جو لالچ دے کر انہیں اپنے یہاں بلواتے ہیں۔ اور تعلیم کے بجائے انہیں دکھاکر عوام سے چندہ بٹورتے ہیں۔ راقم السطور سے کئی ایک معتبر لوگوں نے کہاہے کہ گجرات اور مدراس جیسے دیگر شہروں کے غیر معروف مدارس اسلامیہ کے منتظمین نے بچہ کی حصولیابی کے لئے جال پھیلا رکھا ہے۔ اور ان کے کارندے یہاں سرگرم عمل ہیں۔ جو بطور ایجنٹ ان مدارس کے لئے کام کرتے ہیں۔ اور یہ مدارس کے فارغین اور مقامی بھی ہوتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق بچے اکٹھا کرکے مدرسہ پہنچانے والوں کو انعام و اکرام کے علاوہ فی کس بچہ رقم بھی دیا جاتا ہے۔ یعنی ایک بچہ پر کم ازکم دو ہزار سے پانچ ہزار روپئے تک رقم ملتا ہے۔ گویا ایجنٹ حضرات بچوں کے والدین کو سبز باغ دکھا کر بچوں کو اپنے ساتھ لیجانے پر والدین کو راضی کرلیتے ہیں والدین کو کپڑا اور دیگر اخراجات کے علاوہ ماہانہ وظیفہ کا بھی لالچ دیا جاتا ہے۔ اور یہ والدین بھی غربت کے سامنے ہارمان جاتے ہیں

حالانکہ حقیقت با الکل برعکس ہے۔ ان پچھڑے اور پسماندہ ریاستوں سے ان غیر معروف مدرسوں میں پہونچنے والے قوم کے بچوں کا وہاں ہر طرح سے استحصال کیا جاتا ہے۔ تعلیم و تعلم کے بجائے خدمات، قل قرآن خوانی قسم کے غیر ضروری سرگرمیوں میں انہیں ملوث کیا جاتا ہے ان کا مستقبل خراب کیا جاتا ہے۔

یہ ہے کہ جب 7 سے 10 اور پندرہ سال کے بچے 60 ستر کی تعداد میں جھنڈ بناکے چلیں گے تو کسی بھی عام انسان کو جنہیں مدارس کے نظام سے واقفیت نہیں ہے انہیں ضرور کھٹگے گاجبکہ پولس یا انتظامیہ اہلکاروں کی تشویش بھی جائز ہے۔ پولس یا دیگر اہلکاروں کو شک بھی ہوسکتا ہے اس کے شک کو رفع کرنے کے پورے انتظامات بھی ہونے چاہیے مگر یہاں بھی معاملہ کچھ اور ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ تعلیم و تعلم کے لئے لوگ سفر کرتے ہی ہیں۔ مگر ایک جماعت زیادہ سے زیادہ بیس پچیس لوگوں پر مشتمل ہوسکتی ہے مگر یہاں تو ساٹھ ستر مزید کم عمر بچے تھے ابھی گزشتہ 12 جولائی کو ہندوستان کے ریاست جھارکھنڈ کے اضلاع دھنباد اور بوکارو کے قرب و جوار سے تین استاذ مع ستر بچے الپی ایکسپریس سے آندھرا پردیش جارہے تھے۔ رانچی جنکشن پر شک کی بنیاد پر ریلوے پولس نے تمام طلبہ کو استاد سمیت حراست میں لے لیا۔ اور بچوں کے ساتھ تینوں اساتذہ سے پوچھ تاچھ کی جس میں وہ پولس کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔

ظاہر ہے اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو باہر لیجانے والوں کو ہر طرح سے مضبوط ہونا چاہیے۔ مگر نہیں یہ بس لگے بندھے کام کرنے کے عادی ہیں۔ اس دوران دو پہر دو بجے سے دیر شام تک بچے پولس کسٹڈی میں رہے۔ اس کے بعد ایک مقامی رکن اسمبلی اور ملی تنظمیوں کی مداخلت کے بعد انہیں رہا کیا گیا۔ ذرا محسوس کیجئے کہ وہ کس قدر اذیت ناک لمحہ ہوگا ان بچوں کے لئے؟ معصوم ذہنوں پر کیسی بجلیاں گری ہوں گی؟ ہمیں انہی اذیتوں کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ اپنے دل پر یہ ہاتھ رکھ کر سوچنا ہوگا کہ آیا ہم ان کے بہی خواہ ہیں یا بدخواہ۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2