داعش پاکستان میں، حقیقت یا فسانہ


مستونگ بلوچستان میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد اب یہ کوئی راز نہیں رہاکہ داعش پاکستان میں نہ صرف سرگرم ہے بلکہ مضبوط بھی بہت ہے۔زیادہ پرانی بات نہیں۔ یہی کوئی مئی کے آخری ہفتے میں پاکستان کے اٹارنی جنر ل اشتر اوصاف علی کو تہران میں خبردار کیاگیا کہ داعش کی لیڈرشپ اور سرگرم حامیوں کی ایک بڑی تعداد کو پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقوں میں منتقل کیا جارہاہے۔

انہیں مطلع کیا گیا کہ داعش کے سربراہ ابو بکر بغدادی کو افغانستان منتقل کیا جارہاہے تاکہ وہ پاکستان اور ایران کے اندر سرگرمیاںمنظم کرکے ان ممالک کا حشر بھی شام جیسا کریں۔ مئی ہی میں تاجکستان کے سفیر نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں افغانستان میں داعش کی وسعت پذیرسرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیااور دہشت گردگروہوں بالخصوص داعش کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کے تعین پر زوردیا۔

قبل ازیں مارچ میں پاکستان اور روس کے مابین مشترکہ ورکنگ گروپ کے اجلاس میں داعش کے تیزی سے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ روس نے پاکستان کو معلومات فراہم کی کہ شام اور عراق میں چونکہ داعش کو بری طرح شکست ہوچکی ہے لہٰذا اب وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں مراکز قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

روس کے مطابق اسے عالمی طاقتوں کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے۔ماسکوگزشتہ کئی ماہ سے مسلسل الزام لگارہاہے کہ امریکہ داعش کو وسطی ایشیائی ممالک کی سرحد پر مراکز قائم کرنے میں مدد دے رہاہے تاکہ ان ممالک کو عدم استحکام کا شکار کیاجاسکے۔ امریکہ ان الزامات کی ترید کرتے ہوئے اسے روس کی طرف سے طالبان کے ساتھ روابطہ کا جواز فراہم کرنے کا بہانہ قراردیتاہے۔

گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کوروسی مندوب نے بتایاکہ افغانستان میں دس ہزار کے لگ بھگ داعش کے جنگجو سرگرم ہیں اور ان کا نیٹ ورک افغانستان کے نو صوبوں میں زیادہ مضبوط ہے۔یا درہے کہ داعش افغانستان اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتی رہی ہے۔

داعش کے مقابلے کے لیے علاقائی سطح پر غیر معمولی اقدامات کیے جارہے ہیں۔چند دن قبل اسلام آباد میں روس، چین اور ایران کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کا مرکزی موضوع ہی داعش کی طرف سے ابھرنے والے خطرے کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنا اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ مفاہمت کے بند دروازے کو کھولنا تھا۔

ایسے کسی اجلاس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ امریکی نکتہ چینی کے باوجود پاکستان، چین ، ایران اور روس نے طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ صرف قائم رکھے ہوئے ہیں بلکہ وہ اب اسے چھپاتے بھی نہیں ۔یہ ممالک جوازپیش کرتے ہیں کہ داعش کے مقابلے کے لیے طالبان کے ساتھ روابط رکھنا اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنا علاقائی ممالک کی سلامتی اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔

پاکستان میں داعش کی موجودگی اور اس کے اثرات میں مسلسل اضافے پر کئی برسوں سے کچھ نہ کچھ معلومات ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئی رہی ہیں۔ملک کے مختلف حصوں میں داعش کے پرچم لہرانے کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہی ہیں۔گزشتہ برس آئی ایس پی آرکے سربرا ہ میجر جنرل غفور نے اعتراف کیا تھا کہ پاراچنار کے علاقے میں ہونے والے بم دھماکوں میں داعش کے ملوث ہونے کی اطلاعات ہیں۔

عالمی اداروں کی طرف سے بھی مسلسل یہ اطلاعات ہیں کہ داعش پاکستان میں قدم جمارہی ہے۔ برطانیہ کے رائیل سروسز انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس اینڈ سیکورٹی اسٹیڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق دو سے تین ہزار کے لگ بھگ داعش کے جنگجو پاکستان میں پائے جاتے ہیں لیکن ابھی تک حکومت پاکستان یا عسکری اداروں کی جانب سے کوئی ٹھوس معلومات شہریوں کے ساتھ شیئر نہیں کی گئی۔

داعش کو عراق اور شام میں مغربی ممالک اور خلیجی ریاستوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ پاکستان میں داعش کا ہدف بلوچستان میں آباد ہزارہ کمیونٹی، عیسائی، سلامتی سے متعلقہ ادارے ، اعلیٰ سرکاری حکام اور پاک چین اقتصادی راہداری ہے۔ بلوچستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے سے پاکستان کو سی پیک کے اقتصادی ثمرات سے محروم کرنا ہے۔

داعش اور اس کے ساتھ جڑے دوسرے چھوٹے چھوٹے گروہوں کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کیا جائے تاکہ چینی سرمایہ کار بھاگ جائیں اور بلوچستان ایک بار پھر انارکی کا شکار ہوجائے۔چین کے ساتھ اتحاد اور معاشی ترقی کے دروازے کھولنے پر مغربی ممالک اور بھارت پاکستان کو سزادینے پر کمر بستہ ہیں اور وہ مختلف طریقوں سے اسے ستانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بلوچستان قدرتی مادی وسائل سے مالامال صوبہ ہے جو پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتاہے۔اگر ایک بار دہشت گردوں نے اس علاقے میں جڑپکڑ لی تو پھر گوادر کی ترقی اور پاکستان کی خوشحالی ایک خواب بن جائے گی۔

سی پیک کی مخالفت کرنے والے ممالک کے نام کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وہ پاکستان اور چین کے تعلقات سے نہ خوش تھے۔ اب روس اور ایران بھی چین اور پاکستان کے ہمرکاب ہوچکے ہیں جو موجودہ عالمی نظام کو گوراہ نہیں۔امریکہ نہیں چاہتاہے کہ پاکستان کسی ایسی شراکت داری کا حصہ ہو جو خطے میں امریکی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتاہو۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی جارحانہ طرزعمل اور ہتک آمیز رویہ کی بدولت پاکستان روس اور چین کے ساتھ ایک گہرے اسٹرٹیجک اتحاد کا حصہ بن چکا ہے۔ بلند وبانگ دعوئوں کے بغیر اور روایتی نعروں کے بجائے پاکستان بڑی دانشمندی کے ساتھ ان ممالک کی ٹیکنالوجی اور اقتصادی ترقی کے ثمرات سے مستفید ہونا شروع ہوچکا ہے۔دہشت گردی اور افغانستان کے حوالے سے بھی ان ممالک کے درمیان ایک وسیع اتفاق رائے کا پیدا ہونا ایک مثبت پیش رفت ہے۔

الیکشن کے زمانے میں سیاسی لیڈروں کو ہدف بنانا ایک آسان کام ہوتاہے۔الیکشن کی گہماگہمی کی وجہ سے شہریوں میں زبردست تحرک ہوتاہے۔ ہر کوئی اپنی سیاسی جماعت کو کامیاب کرانے کے لیے سرگرم ہوتاہے۔پشاور ، بنوں اور مستونگ میں سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کو ہدف بنانا کا مقصد بھی سیاسی عمل کو متاثرکرنا تھا تاکہ الیکشن ملتوی ہوسکیں ۔

الیکشن ملتوی ہونے کی صورت میں پاکستان کے مخالفین کو ملک کے اندر انتشار پیدا کرنے کا ایک اور موقع مل جائے گا۔ حکومت اور اس کے تمام خفیہ اداروں اور زیادہ تندھی کے ساتھ ملک میں امن وامان کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنا ہوگی۔داعش کے خطرے سے بھی شہریوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ شتر مرغ کی طرح خطرہ کی بوسونگھ کر ریت میں سر چھپانے سے کچھ حاصل نہیں۔

نیکٹا اور نیشنل ایکشن پروگرام کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دہشت گردی کا مسئلہ اگلے دوتین عشروں تک حل ہونے والا نہیں۔جس رفتارسے نوجوانوں میں انتہاپسندانہ نظریات سرایت کررہے ہیں وہ بہت خطرناک رجحان ہے۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نفرت انگیز تقریریں کرنے والوں ،تحریریں لکھنے والوں اور سوشل میڈیا کو منفی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کے لیے راستے میںکوئی رکاوٹ نہیں۔

ان کا محاسبہ کرنے اور انہیں سزادینے سے ریاست کتراتی ہے۔ حکومت کو دشنام طرازی، سوشل میڈیا کے غلط استعمال اور مخالفین پر جھوٹے الزامات لگا کر ان کا عرصہ حیات تنگ کرنے والوں کے خلاف بھی ایسی قانون سازی کرنی چاہیے جس پر عمل درآمد کرنا آسان ہو۔

بشکریہ نائنٹی ٹو

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood