آخری خط – اس سے تو اچھا تھا کہ مر جاتے


جان سے پیارے بیٹے
اللہ تمہیں اپنے امان میں رکھے۔ تمہارا خط ملا اورتصویریں بھی۔ تم دبلے ہوگئے ہو بیٹا اپنا خیال رکھا کرو۔ عامر کے بعد اب تم ہی ایک سہارا ہو۔ سب تمہیں یاد کرتے ہیں۔ تم اپنے کھانے پینے کا خیال کرو اگر تین وقت نہیں تو کم از کم دو وقت ڈٹ کر کھایا کرو۔

بیٹے عامر تو چلا گیا شاید اوپر والے کی مرضی یہی تھی۔ پولیس والوں نے کسی کو نہیں پکڑا، حکومت نے کوئی مدد نہیں کی، یہ سب کچھ تو یہاں ہوتا ہی رہتا ہے نہ کوئی قانون ہے اور نہ ہی کوئی سننے والا۔ ہم لوگ تو یہ ہی صبر کرتے ہیں کہ پولیس والے ہمارے گھر کے معصوم لوگوں کو بھی پکڑ کر بند کرسکتے تھے اور انہیں ہی اُلٹا تشدد کا نشانہ بناتے تو ہم کیا کرلیتے۔ صابرہ کا بیٹا بھی ایسے ہی ڈبو کی دکان پر گولیوں کا نشانہ بنا تھا۔ چلتے ہوئے اسکوٹر سے کسی نے گولی چلا کر اسے ماردیا۔ صابرہ کی بہن کا بیٹا محسن اس کے ساتھ تھا۔

بجائے یہ کہ ملزم پکڑے جاتے بے چارہ محسن آٹھ مہینے جیل میں رہا۔ پولیس والوں کو رشوت دے کر اسے آزاد کرایا گیا اور پھرکئی مہینوں تک علاج کرنے کے بعد اب وہ اس قابل ہوا ہے، دوبارہ کام پر جاسکے۔ ہمارے ملک میں تو یہ کافی عام سی بات ہے لوگ سڑکوں پر قتل کردیئے جاتے ہیں۔ سنی شعیوں کو مارڈالتے ہیں، شیعہ سنی مسجدوں میں نمازیوں پر گولی چلاتے ہیں۔ دیوبندیوں اور اہل حدیث کا مسجدوں پر قبضے کے مسئلے پر مسلسل جھگڑا چل رہا ہے۔ پولیس مسجدیں بند کردیتی ہے، پھر عدالتیں مسجدیں بحال کردیتی ہے۔ پھر جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ ختم نبوت والوں کا گروپ ختم نبوت کے نام پر جسے چاہے ماردیتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ تمہارے ابو روزانہ اخبار میں ایسی خبریں پڑھ پڑھ کر بتاتے رہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ قانون، انسانیت اور انصاف کہاں کھوگئے ہیں۔

تم نے صحیح لکھا ہے کہ یہ سب کچھ ہمیں ہمارے اعمال کی سزا مل رہی ہے۔ مسلمان اسلام کے راستے سے ہٹ گئے ہیں اور کوئی اسلامی فوج ہی انہیں واپس اسلام کے راستے پر ڈال سکتی ہے۔ پر آج کل اسلامی فوج ہے کہاں، پہلے زمانے میں لوگ اسلام کے لئے لڑتے تھے تو ان کی اوربات تھی، اب تو مسلمانوں کے دشمن ایسے مضبوط ہیں کہ ان سے لڑنے کے لئے جو کچھ چاہیے وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ تمہارے ابو تو یہی کہتے ہیں کہ بغیر تعلیم کی دولت کے کسی سے بھی لڑا نہیں جاسکتا ہے۔ اگر تمہاری منشا یہ ہے کہ فی الحال شادی کی بات نہ کی جائے تو ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہے، تم خوش رہو۔

خط اپنی جگہ پر مگر فون پر تمہاری آواز سن کر بڑی ڈھارس ہوتی ہے کبھی کبھی فون بھی کرلیا کرو۔
تمہاری امی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ O۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بیٹے
صدا سلامت رہو
تمہارا دوست محب اشرف ملنے آیا تھا۔ اچھا بچہ ہے، تمہاری بھیجی ہوئی چیزیں ملیں۔ یہ خط اشرف کے ساتھ بھیج رہی ہوں۔ ساتھ میں ایک سوئٹر بھی ہے تمہاری پسند کے رنگ کا۔ تمہیں بہت پسند آئے گا۔ خاصا موٹا اون لے کر بُنا ہے میں نے۔ وہاں کی سردی میں بہت اچھا رہے گا۔ اشرف نے کھانے کی چیزوں کا منع کردیا کہ آج کل ایئرپورٹ پر بڑی سختی ہے۔

تمہارے ابو کہہ رہے تھے کہ ساری دنیا میں مسلمان مسافروں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسا ہونا نہیں چاہئیے تھا۔ ہمارے نبیؐ نے ہمیشہ کافروں کو یہاں تک کہ یہودیوں کو بھی کچھ نہیں کہا جب وہ ان پر کوڑا پھینکتے تھے۔ ان کے خلاف شاعری کرتے تھے، اللہ کے گھر میں ان کے کاندھے پر اوجھڑی پھینک دی تو بھی انہوں نے معاف کیا اوراللہ نے بھی صبر ہی سکھایا اب دنیا بدل گئی ہے بیٹے، یہ سب کسی کو یاد نہیں ہے۔

یہاں بھی حالات ایسے ہی ہیں۔ رخسانہ کے لئے ایک رشتہ آیا ہے۔ اچھے لوگ لگتے ہیں۔ لڑکا سعودی عرب میں کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں جہیز وغیرہ نہیں چاہئیے، بس خوبصورت لڑکی کی خواہش ہے اورانہیں رخسانہ پسند بھی آگئی ہے۔ لڑکے کی بہن نے رخسانہ کو یونیورسٹی میں دیکھا تھا۔ تمہارے ابو لڑکے کے بارے میں پتہ کررہے ہیں کسی بُری بات کا پتہ نہیں چلا تو ہاں کردیں گے۔ آج کل بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ ایک بیوی کے اوپر دوسری بیوی لے آتے ہیں۔ اگر طلاق یافتہ ہوں توبتاتے بھی نہیں۔ بیٹی کا معاملہ ہے بس ڈر لگارہتا ہے۔ عامر ہوتا تو ساری باتیں پتہ کرلیتا۔ چلو اللہ جو کرے گا اچھا ہی کرے گا۔

تمہارے ابو کے دفتر کے برابر خفیہ پولیس والوں کا دفتر ہے وہاں پر کل بڑا دھماکہ ہوا۔ ہم لوگوں کی تو جان ہی نکل گئی تھی لیکن شکر ہے رب العزت کا کہ تمہارے ابو محفوظ رہے مگر دوسرے بے شمار معصوم لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ اسی وقت وہاں سے بچوں کے اسکول کی بس بھی گزررہی تھی۔ آٹھ بچوں کی جانیں بھی چلی گئیں۔ میرا تو دل دہل ساگیا ہے۔ نہ جانے ان کے ماں باپ پر کیا گزررہی ہوگی۔ ایک ہمارے عامر کے جانے سے ہمارا خاندان کتنی مشکلوں میں گھر گیا ہے۔ ہر اچھے برے موقع پر اس کی یاد سینے پرجیسے چُھریاں چلاتی ہے۔ نہ جانے یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ہمارا بیٹا ہم سے چھین لیا اور اب روز اس طرح کے دھماکے کرکے خاندانوں کو اجاڑدیتے ہیں۔ اللہ سب کو محفوظ رکھے، اپنی امان میں رکھے، اپنی پناہ میں رکھے۔

چھوٹی نے کالج میں بڑے اچھے نمبر لئے ہیں اس کا داخلہ میڈیکل کالج میں ہوجائے گا۔ اسے ڈاکٹربننے کا بڑا شوق ہے۔ سرکاری میڈیکل کالج کی فیس تو کسی طرح سے دے دی جائے گی۔ مجھے تو ہول ہی آتا رہتا تھاکہ اگر اچھے نمبر نہ آئے تو پرائیویٹ میڈیکل کالج میں پڑھانا تو ہمارے بس کی بات نہیں ہے نہ جانے لوگوں کے پاس اتنی بڑی بڑی فیس دینے کے لئے پیسے کہاں سے آتے ہیں۔ اللہ اسے خوش رکھے۔ اچھی تعلیم ہوگی تو اچھی جگہ شادی بھی ہوسکے گی۔

آج فرصت مل گئی تھی اور تمہارا دوست جارہا تھا تو ذرا لمباخط لکھ دیا ہے۔ بیٹے فون کرتے رہنا۔ بہت ساری دعائیں تمہارے لئے۔
تمہاری امی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ O۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مزید پڑھنے کے لئے ”اگلا صفحہ“ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3