میڈیا نے نواز شریف کی واپسی کو سانحہ مستونگ پر کیوں ترجیح دی تھی؟


جی ناظرین! ملک کے سابق وزیرِاعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز ابو ظہبی ایئر پورٹ پر لینڈ کر چکے ہیں۔
صرف ہمارا چینل آپ کو دکھا رہا ہے کہ مریم نواز ابو ظہبی ایئر پورٹ کے ڈیوٹی فری شاپ پر خریداری کر رہی ہیں۔
اس وقت سابق نا اہل وزیرِ اعظم اور ان کی صاحبزادی ابو ظہبی ایئر پورٹ پر فلائیٹ میں سوار ہوئے ہیں۔

نا اہل سابق وزیرِ اعظم کا طیارہ پاکستان کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔
شہباز شریف بھائی اور بھانجی کے استقبال کے لئے لاہور سے روانہ ہوئے تھے۔ ان سے رابطہ نہیں ہو سکا ہے ہمارا۔
نواز شریف اور مریم نواز طیارے سے اتر کر پیدل ہی لاؤنج کی طرف جا رہے ہیں۔

یہ میرے بلاگ کی نہیں بلکہ پاکستان کی الیکٹرانک میڈیا کی 13 جولائی کی شام کی سرخیاں ہیں۔ اس دن کی خاص بات یہ ہے کہ اس روز پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز لندن سے پاکستان واپس آ رہے تھے۔ نواز شریف کی غیر موجودگی میں ہی ان پر چلنے والے ایون فیلڈ ریفرینس میں پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے انہیں دس سال، ان کی بیٹی مریم نواز کو سات سال اور ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ایسی سزا ملنے کے بعد ان ’مجرمان‘ کی وطن واپسی ظاہر ہے ہمارے میڈیا کے لیے ایک بہت بڑی خبر تھی جس کو کوئی بھی میڈیا چینل ایسے کیسے ہاتھ سے جانے دیتا۔

13 جولائی کی سہ پہر سے ہی پاکستان کے سب نیوز چینلز نہایت چستی و مستعدی سے اپنی مکمّل توجّہ صرف اور صرف اسی ایک خبر پرمرکوز کیے ہوئے تھے۔ ٹیلی ویژن صحافت کے سب بڑے سورما اپنے تجربہ کی بنیادوں پر سابق وزیرِ اعظم اور ان کی صاحبزادی کی آمد پر تبصرہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ نواز شریف کا ماضی، ان کی ماضی کی سیاست، ان کی جلاوطنی، پھر وطن واپس آمد، پاناما لیکس، عدلیہ میں ایون فیلڈ کیس کی سماعتیں، ان کی اندرونِ و بیرونِ ملک املاک، ان کی آئندہ سیاسی حکمتِ عملی، ان کے دیے گئے بیانات، ان کی پارٹی کا بیانیہ، شہباز شریف کی متوقع حکمتِ عملی، سیاسی مخالفین کی بیان بازی، دیگر سیاست دانوں اور سیاسی رہنماؤں کی املاک، عدلیہ سے دیگر سیاست دانوں کے احتساب کا مطالبہ اور ایک ہی خبر کو بار بارچِّلاتے ہوئے بتاتے اور دکھاتے رہے۔ تقریباٌ آٹھ گھنٹے تک سب نیوز چینلزنے ہر زاوئیے سے خبر کو کوَر اور ’بریک‘ کرتے رہے۔

جس وقت یہ سب خبریں مقامی نیوز چینلز پر نشر ہو رہی تھیں اُس وقت تک 13 جولائی کی صبح کو بنوں اور مستونگ میں ہوئے دو خود کش حملوں کو تقریباً دس گھنٹے گزر چکے تھے اور ان حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی تعداد ایک سو سے تجاوز کر چکی تھی جن میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار سراج رئیسانی شامل تھے۔ متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔ یہ صرف دو خود کش حملے نہیں بلکہ ٹوٹی ہوئی کمر کو گھسیٹتے ہوئے دہشتگردوں نے قومی وحدت اور سلامتی پر ایک کاری ضرب لگائی تھی۔ لیکن جناب، ہمارے قومی میڈیا کے پاس اتنا وقت کہاں کہ اس قومی سانحے کی طرف دھیان دے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اس رجحان کو اس طرح بھی بیان کر سکتے ہیں کہ ’پاکستانی میڈیاپنجاب کی خبرچھوٹی سے چھوٹی خبر سندھ اور بلوچستان کی بڑی خبر پر غالب آ جاتی ہے‘۔

ابلاغیات کا طالبِ علم ہونے کی ناطے میں ایسا نہیں سوچتا ہوں اور نہ ہی اس بات کا تجزیہ اس سادگی سے کرتا ہوں۔ امریکی سماجیات دان اسٹیفن ہلگارٹنر اور چارلس بوسک نے سماجی مسائل کے عروج و زوال کے بارے میں لکھتے ہوئے ایک ماڈل ’پبلک ارینا ماڈل‘ دیا جہاں مختلف سماجی مسائل کے بیچ ’سیلیبرٹی اسٹیٹس‘ کے حصول کے لیے پبلک ارینا میں مسلسل مقابلہ ہوتا رہتا ہے۔ اگر ہم 13 جولائی کی میڈیا کوریج کو اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ بات قطعاّ صاف اور واضح ہے کہ اس دن شریف خاندان کی وطن واپسی کی خبر نے مستونگ دھماکے کی خبر پر غالب آ کر ’سیلیبرٹی اسٹیٹس‘ حاصل کر لیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل تھے جن کی بنا پر شریف خاندان کی واپسی کی خبر ایک قومی سانحے پر غالب آ گئی۔

صحافتی تعلیم کے محققین خبر کی ویلیوز کا تّعین کرتے ہوئے خبری اقدار کو جن مختلف زمرات میں تقسیم کرتے ہیں ان میں نامور شخصیات کی خبر Celebrity انسانی دلچسپی کی خبر (Human interest) اور قد و قامت کے لحاظ (Magnitude) سے بڑی خبربھی شامل ہیں۔ اگر ہم درج بالہ دو خبروں پر نگاہ دوڑائیں تو شریف خاندان کی خبر نامور شخصیات کی قدر پر پوری اترتی نظر آتی ہے جس قدر نے اس کو خبر بنا دیا۔ جبکہ مستونگ سانحے کی خبر قد و قامت کے حساب سے اس سے بھی بڑی خبر تھی جہاں 130 معصوم جانوں کا زیاں ہوا۔ لیکن اس پر آشوب موقع پر ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے شریف خاندان کی واپسی کی خبر کو اّولیت دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کی نظر میں نامور شخصیات اور انسانی دلچسپی کی خبر زیادہ اہم ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتاہے کہ پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کے نزدیک ایک سیاسی تماشہ انسانی جانوں کی خبر سے زیادہ اہم ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں نجی الیکٹرانک میڈیا کو میدان میں آئے ہوئے اٹھارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اب بھی الیکٹرانک میڈیا صحافتی اقدار کے اعتبار سے اّیامِ طفلیت میں ہے اور خبر دے کر عوام کو آگاہی دینے کے بجائے محظوظ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے جو کہ مضحکہ خیز ہے اور معنی خیز صحافت کے اصولوں کے بلکل برعکس ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).