فٹبال ورلڈ کپ سے جُڑے جذبات ہمارے


کسی بھی کام سے لگاؤ اُس کا شوق رکھنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مگر جب کسی کام یا چیز کا آپ کوئی شوق ہی نہ رکھتے ہوں اور ایک وقت ایسا آئے کہ آپ اُس کو پسند کرنے لگیں تو اُسے آپ کے شوق میں ایک خوشگوار اضافہ سمجھا جائے گا۔ لیکن اگر آپ کو اُس کام کی سمجھ ہی نہ ہو اور پھر بھی اُس کا حد سے زیادہ شوق رکھنا، یہ زیادہ اچھا شگون نہیں سمجھا جاتا۔

آپ سب اِس بات سے یقیناً آشنا ہوں گے کہ اِس مرتبہ فٹبال ورلڈکپ کے مقابلے روس کے مختلف شہروں میں کھیلے گئے۔ اور اِس عالمی فٹبال میلے کے تمام مقابلوں میں کھیل کے شوقین افراد نے بھرپور دلچسی ظاہر کی۔ دلچسپی ہونی بھی چاہیے آخر دنیا کا سب سے زیادہ کھیلے جانے والا کھیل ہے یہ۔ لیکن حد سے زیادہ دِلجوئی بھی کئی بار اچھی نہیں سمجھی جاتی۔ آپ سب نے ایک مشہور کہاوت تو سُنی ہوگی، ”بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ“۔ یہ کہاوت پاکستانی عوام کے فٹبال ورلڈکپ کے مقابلوں اور خاص طور پر فٹبال کے غیر ملکی کھلاڑیوں کے لئے دن بدن بڑھتے جذبات پر پوری اُتر رہی ہے۔ پاکستان میں فٹبال کھیلنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ستر برس گزر جانے کے بعد بھی قومی فٹبال ٹیم ورلڈکپ میں شرکت سے محروم ہے اور نہ ہی آج تک اسے کبھی عالمی رینکنگ میں درجہِ اوّل کی سو ٹیموں میں شمولیت نصیب ہوئی ہے۔ سب سے بڑی وجہ نوجوانوں کا اِس کھیل کا شوق نہ رکھنا ہے۔ لیکن جب بھی ورلڈکپ کا آغاز ہونے کو ہوتا ہے پاکستانی عوام کی دلچسپی ایسی ہوتی ہے کہ جیسے کہ اِن سے بڑا کوئی فٹبال کا پرستار ہی نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو بیگانی شادی میں عبداللہ کے زبردست ٹھمکے ابھی بھی جاری ہی ہیں۔

ہر کھیل کے کچھ اُصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ اسی طرح فٹبال کے مقابلے میں بھی یہ ایک اُصول ہوتا ہے کہ کونسی ٹیم فٹبال تک پہلے رسائی حاصل کرے گی، اس کے لئے سکّہ اچھالا جاتا ہے۔ ایک ہم پاکستانی ہیں، تیس پینتیس لڑکے فٹبال کو اچھال کر کہتے ہیں ”جنہیں پہلاں پھڑ لیا اودھی واری“۔ اور جیسے دنیا دیکھتی ہے کہ شادی پر کھانا کُھلتے ہی بھگدڑ مچتی ہے، ایسے ہی کچھ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سب سے زیادہ پریشان کُن بات کہ مقابلے میں تمام کھلاڑیوں کے لئے مختص جگہ پر کھڑے ہونے کا رواج ہی نہیں پایا جاتا۔ بس جہاں جہاں فٹبال جاتا ہے، پینتیس کے پینتیس لڑکے وہیں کسی ریلی کی مانند دوڑنے لگ جاتے ہیں۔

اب ذرا بات کرتے ہیں فٹبال کے تمام مشہور کھلاڑیوں بالخصوص مسلمان مصری کھلاڑی محمد صلاح کے لئے پاکستانیوں کے بڑھتے جذبات کی۔ پاکستانی عوام کے فٹبال ورلڈکپ پر تبصرے اور تجزیے سُن کے لگتا ایسے ہے کہ جیسے میسی کا تعلق چکوال سے ہے، رونالڈو میانوالی کا اور صلاح رحیم یار خان کا ہو۔ کچھ عرصہ پہلے ایک مشہور فٹبال لیگ کے فیصلہ کُن معرکے میں اسپین کے کھلاڑی سرجیو رومس کی ٹکر سے مصری کھلاڑی محمد صلاح زخمی ہوگئے اور مقابلے کے آغاز میں ہی میدان سے باہر چلے گئے۔ جس پر اُمّتِ مسلمہ کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی۔ تمام پاکستانیوں کا فوج، تمام خُفیہ اداروں، سیاسی قیادت اور عدلیہ سے یہ سوال تھا کہ کیوں وہ اِس معاملے پر متحرّک نظر نہیں آئے، نہ ہی کوئی بیانیہ دیا اور نہ ہی کوئی تنبیہہ کی؟ حالانکہ کہ محمد صلاح کا روزہ بھی تھا!

ہاں، ایک چیز ہے کہ جس کی وجہ سے پاکستانیوں کے جذبات کا اُبھر کے آنا جائز بھی ہے اور وہ ہے ورلڈکپ میں پاکستان سے تیارکردہ فٹبالوں کا استعمال۔ عالمی فٹبال تنظیم فیفا نے روس میں جاری ورلڈکپ کے مقابلوں کے لئے سیالکوٹ کی ایک نجی کمپنی کو بڑی تعداد میں فٹبالوں کی تیاری کا ہدایت نامہ جاری کیا تھا۔ چونکہ پاکستان فٹبال کی ایک اوسط درجہ ٹیم ہے اور ہماری ٹیم ورلڈکپ میں بھی شرکت کی اہل نہیں۔ مگر جب بھی ورلڈکپ کا آغاز ہونے کو ہوتا ہے تو عوام کو ایک یہ خوشی تو نصیب ہو جاتی ہے کہ فٹبال پاکستان سے تیار ہوں گے۔ کراچی کا علاقہ لیاری جسے ”مِنِی برازیل“ بھی کہا جاتا ہے، یہاں فٹبال کا بے حد شوق پایا جاتا ہے۔ جبکہ باقی پاکستانی نوجوان موسمی شوقین کے طور پر سامنے آتے ہیں، صرف اور صرف جدید رُجحانات کی تقلید کی خاطر۔ شوقین نوجوان بھی منظّم پلیٹ فارم کی کمی کے باعث آگے نہیں بڑھ پاتے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ پاکستانی فٹبال تو ورلڈکپ میں پہنچ گیا مگر پاکستانی فٹبالر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).