میاں صاحب کی ڈائری: جیل میں تیسری رات


اٹھارہ سال بعد دوبارہ ویسا ہی ماحول، آج جیل میں تیسری رات، میں ایک عرصے بعد بالکل اکیلا، کل والدہ مجھ سے ملاقات کرنے آئیں، ان کے ساتھ چھوٹے بھائی صاحب، بھتیجا، نواسی اور اس کا شوہر بھی تھا۔ میرے معالج بھی ان کے ساتھ تھے جنہوں نے میرا چیک اپ کیا، مجھے حوصلہ دینے کیلئے بولے آپ کا دل بالکل پرفیکٹ ہے بلکہ آپ کا دل بہت مضبوط لگ رہا ہے۔ ماں جی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ مجھے مسلسل دعائیں دے رہی تھیں، ان کی ایک ہی خواہش تھی جو انہوں نے سپرنٹنڈنٹ سے بھی کہہ ڈالی، مجھے بھی بیٹے کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جائے۔ میری سزا یہ ہے کہ میں اس کی ماں ہوں۔

میرے گمان میں بھی یہاں پھر آنا نہیں تھا، حالانکہ میرے ساتھ جیسا سلوک روا رکھا جاتا رہا اس میں یہ بعید ازقیاس ہرگز نہ تھا لیکن میرے اعتماد کی پرواز شاید بہت بلند تھی۔

عوام نے ہی اعتماد دیا تھا، میں نے 2007 میں پاکستان واپس آنے کے بعد جیل کو بہت زیادہ یاد بھی نہیں کیا تھا کبھی کبھار تذکرہ ہو جاتا وگرنہ ذھن اس طرف جاتا نہ تھا۔ یہ ضرور تھا جب سے پاناما کیس چلا نہ جانے کیوں دل میں وسوسے سے پیدا ہوگئے خصوصاً حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد دل کبھی دھڑکتا کہ کہیں دوبارہ جیل کا منہ نہ دیکھنا پڑ جائے۔ یہ کیس ایسا بُری طرح مجھے اور میرے خاندان کو جکڑ گیا کہ جیسے لگتا تھا سب ہی سزائیں پائیں گے۔ میری والدہ کے سوا ہر فرد کا نام کسی نہ کسی حوالے سے عدالتوں میں لیا گیا۔ سب سے تکلیف دہ بات میری بیٹی بھی میرے ساتھ پیشیوں کی سنچری کرچکی تھی۔ اگرچہ وہ میرا حوصلہ بڑھاتی لیکن اندر سے میرا دل بہت دکھی تھا، یہی وجہ تھی کہ میں اکثر جذباتی ہوکر تقریر کرتا یا میرے منہ سے کچھ ایسا ویسا نکل جاتا ہے۔

کل بھی نیند نہیں آسکی، دوسری رات والدہ سے ملاقات کے بعد دل زیادہ بوجھل ہوگیا میں نے ان کو حوصلہ دیا بیٹی نے بھی دادی کو تسلی دی کہ ہم قانونی جنگ جلد جیت جائیں گے دوسرے عوام کی عدالت بھی اپنا فیصلہ سنانے والی ہے۔ عوام مجھے بہت زیادہ چاہتے ہیں لیکن جس طرح ہمارے لوگوں کو ہم سے الگ کیا گیا۔ اس سے میرے وسوسے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایک بات بار بار ستاتی ہے کہ ماضی کی حلیف جماعتوں کے رویے بھی خاصے بدلے ہیں، وہ مستقبل قریب میں بھی ہم سے ناراض لگتے دکھائی دیتے ہیں۔

مجھے میٹرس دیا ہے لیکن بیڈ نہیں، باتھ روم بھی گندا ہے، چھوٹے بھائی سے بھی کہاہے، دیکھیں نگرانوں تک میری بات پہنچاتے ہیں، پہلے دن اخبار بھی نہیں ملا، یہاں کے حالات اور ان سب سوچوں میں گم آج بھی بستر پر کروٹیں لیتا رہا، اگرچہ میں عمر کے ایک اگلے حصے میں ہوں، دل کا عارضہ بھی لگ چکا ہے، اب صحت کے معاملات پہلے جیسے نہیں، میرا بار بار دھیان لندن میں زیرعلاج بیگم کی جانب چلا جاتا ہے، میرے پاس اب رابطے کا ذریع بھی اتنا موثر نہیں، مجھے خود ہی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ فون کی براہ راست سہولت نہیں۔ دن میں بڑے بیٹے سے بات ہوئی تھی، اس نے بتایا کہ والدہ کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ادھر دونوں بھائیوں کو میرا دکھ تو ہے ہی، بہن کے بارے میں بہت زیادہ رنجیدہ تھے، وہاں سے آتے وقت بھی کیفیت انتہائی المناک تھی۔ وہ بے چارے کچھ کر نہیں سکتے، ہمارے ساتھ بھی آنے کی پوزیشن نہیں۔

ایک عرصے بعد ایسا ہوا کہ میں تیسری رات تقریباً جاگ کر گزار رہا ہوں۔ مجھے سیل نمبر گیارہ دیا گیا ہے، جس میں ٹہلتے ہوئے ماضی کی یادیں تازہ ہوگئیں، جیل کے قیدیوں نے پہلے دن ہمارا بھرپور خیرمقدم کیا۔ انہیں پیشگی ہماری آمد کا علم ہوچکا تھا۔ یہاں مختلف جرائم میں سزا پانے والے قیدی ہیں۔ وہ بے چارے اتنے جذباتی تھے کہ اپنی پریشانیاں اور تکالیف بتانے لگے۔ میں نے کہا میں آپ کی طرح ایک سزایافتہ قیدی ہوں۔ مجھے اس نئے روپ میں قبول کرو۔ آج کی رات مجھے کئی غلطیاں بھی یاد آئیں جنہیں میں دانستہ طور پر بھلا چکا تھا۔ اس بات کا بھی احساس ہوا کہ اقتدار میں میری آنکھیں بس اپنے مطلب کا دیکھنا چاہتی تھیں۔ جس کے نتیجے میں کچھ لوگ ناراض ہوگئے۔

جیل کی رات بھی عجیب ہوتی ہے اس کا سناٹا بھی ایک خوف ساتھ لیے ہوتا ہے کبھی تو موت کی سی خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔ سلاخوں کے پار سے آسمان بھی بڑا مختصر رہ جاتا ہے۔ اس محدود دکھائی دینے والے منظر کا احساس بھی بڑا دل دہلا دینے والا ہوتا ہے۔ حقیقت ہے کہ جیل مقام عبرت ہے۔ کچھ یہاں کے حالات بھی اتنے اچھے نہیں ہوتے، ظاہر ہے قیدیوں کیلئے کتنی سہولتیں رکھیں، اگرچہ ہمیں بی کلاس دی گئی تھی۔ لیکن دن کے خاص اوقات میں جیل کا لباس بھی پہننا پڑتا ہے ابھی سپرنٹنڈنت نے آج بتایا تھا کہ چونکہ ہم لوگ بامشقت قیدی ہیں، اس لیے کوئی چھوٹا موٹا کام منتخب کرنا پڑے گا۔ وہ بے چارہ بڑا شرمندہ تھا اور کہتا تھا آپ سے کوئی کام کرایا جائے، ہمت نہیں پڑتی۔ میں نے اس کو تسلی دی کہ تم اپنی ڈیوٹی انجام دو، اگر ہم لندن سے جیل آ گئے ہیں تو ہر طرح کے حالات کا بھی سامنا کرلیں گے۔ میرے بعض مخالفین میرے بارے میں غلط تاثر رکھتے ہیں کہ میں بادشاہ کی طرز زندگی بسر کرتا ہوں۔ ایسا نہیں، یہ ضرور ہے کہ تمام سہولتیں اور آسائشیں حاصل رہی ہیں۔ لیکن آج کی رات مچھروں نے خوب استقبال کیا، میں نے پہلی رات کی روداد سپرنٹنڈنٹ کو سناتے مچھروں کا خاص طور پر ذکر کیا تھا۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ سپرے کرادے گا لیکن شاید اپنی مصروفیات میں بھول گیا ہو۔ یا اسے ایسا نہ کرنے کا حکم ملا ہو۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے مچھر بھی اپنے مسائل سنانے کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ مجھے پریشانی تھی کہ کہیں ڈینگی والے نہ ہوں۔ میں دل کا مریض ہوں کہیں کوئی خطرہ نہ بن جائیں۔

مجھے محسوس ہورہا ہے کہ جیل میں خفیہ والے بھی قیدی اور عملے کی صورت موجود ہیں، جن کا مقصد محض میری سرگرمیوں پر نگاہ رکھناہے۔

رات کے تیسرے پہر مجھے خیال آیا کہ وضو کرکے نفل پڑھ لوں کیونکہ اب میری تمام مصروفیات ختم ہوگئی ہیں کیوں نہ اپنے رب سے ہی بات کرلوں۔ اس معاملے میں بھی سچی بات ہے کہ بڑی غفلت برت جاتا ہوں۔ کئی برسوں بعد آج کی رات میں اپنے رب کے حضور کھڑا ہوا۔ میری آنکھیں توبہ کرتے نم آلود ہو گئیں۔ یہ وقت ہوتا ہے جب انسان کہتا ہے کہ کاش میں ایسا نہ کرتا یا دوسروں بات مان لیتا ان کی دعائیں لے لیتا۔

جیل کی رات لمبی ہوتی جارہی ہے، میں نے سوچا مخالفین پر کڑھنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اب مزاج کو بھی زمانے کے مطابق بدلنا ہوگا۔ میں نے اس رات میں یہ بات بھی جان لی کہ انسان کو سچ کا بڑی وسیع القلبی دکھاتے ہوئے سامنا کرنا چاہیے، میں عبادت سے فارغ ہوگیا، رب سے دعا کی مجھے یہاں سے نکالے، اور میرے لیے آسانیاں پیدا کرے۔

رات ابھی تک روشنی کے تعاقب میں تھی، ایسا لگتا تھا کہ میں اس رات کے ساتھ چلتا تھک چکا ہوں۔ چھت کا پنکھا بھی اپنی آواز سے مجھے چوکس رکھنے کی کوشش میں تھا۔ اس کمرے کی کوئی شے ابھی تک میرے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔

جیل کی رات مجھے بہت کچھ یاد دلانے میں مصروف رہی۔ میرا ذھن ماضی کی بے شمار باتوں میں کھو چکا تھا۔ جن کا ساتھ اب کافی دنوں تک چلے گا۔ مجھے اپنا معمول بھی نئے سرے سے بنانا ہوگا۔ اب کچھ آرام بھی ملے گا۔ یہ درست ہے کہ میرا ذھن اور جسم اس کا تقاضا کرتا ہے۔ معلوم نہیں جیل کی رات کب تک جاگے گی، اور کب مجھے نیند آئے گی۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar