ناگزیر انتخابی اصلاحات


سانپ نکل جائے تو لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ انتخابی معرکے میں گنتی کے چند روز باقی ہیں۔ نیب کی مہربانی سے کافی ساری گندی مچھلیاں مقابلے کی دوڑ سے نکل چکی ہیں مگر ہنوز دلی دور است، بہت سے کام ابھی بھی باقی ہیں۔ ملک ابھی بھی کرپشن سے پاک نہیں ہوا۔ بے لاگ احتساب وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ملکی سیاست کی بساط پر کئی بڑے مہرے آج بھی سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر تقدیس کی چادر اوڑھے احتسابی عمل میں بڑے کروفر سے مصروفِ عمل ہیں۔ خاکم بدہن چند دنوں بعد ہم پھر نوحہ کناں ہوں گے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے قوم کے سر پر مسلط رہنے والے پھر مسندِ اقتدارپر جلوہ گر ہیں۔ اگر ہمارے عاقل و بالغ لوگ سر جوڑ کر بیٹھتے تو اس مسئلے کا حل بہت آسانی سے نکالا جا سکتا تھا۔

قیامِ پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان میں جداگانہ حقِ نیابت وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ آبادی کے تناسب سے نمائندگی کے اصول نے ہی قیام پاکستان کے خواب کو شرمندہء تعبیر کیاتھا اور آج الحمدللہ ہم ایک آزاد اسلامی مملکت کے شہری ہیں۔ ملکی آبادی کا بڑا حصہ مسلم اکثریت پر مشتمل ہے۔ مگر ہم آج بھی ان ہی قدیم روایات کو سینوں سے لگائے ہو ئے ہیں۔ آج کا پاکستان چار بڑے صوبوں پر مشتمل ہے چاروں صوبوں کو ایوان میں یکساں نمائندگی دی جانی چاہیے تھی، تاکہ متناسب نمائندگی کے اصولوں پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کیا جاتا۔ اس طرح ایک مخلوط طرز کی حکومت بنتی جو علاقائیت کے بجائے مضبوط وفاق کی علامت کے طور پر سامنے آتی۔ اس طرح صوبوں کے اندر پائے جانے والے احساسِ محرومی کو بآسانی ختم کیا جا سکتا تھا۔

پنجاب آبادی کے اعتبار سے اکثریتی صوبہ ہے۔ اس صوبے میں نمائندوں کی تعداد بھی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے، لہذا جو سیاسی پارٹی پنجاب سے واضح اکثریت حاصل کر لے دیگر صوبوں سے کچھ نشستیں جیت کر پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کا دعوا کر دیتی ہے۔ پاکستان کی پسماندہ اور غریب عوام ہی دراصل حکومت سازی کے عمل میں کلیدی اہمیت کی حا مل ہے۔ اس تلخ حقیقت سے کسی طور صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کہ اس طبقے کا ووٹ ایک بریانی کی پلیٹ، قیمے والے نان اور زردے کی قاب کے عوض خریدا جا سکتا ہے (کیا یہ ”تلخ حقیقت“ مصنفہ کا ذاتی تجربہ ہے یا سنی سنائی بات ہے؟ مدیر)، رہی سہی کسر ذات برادری اور قبائلی ہمدردیوں سے پوری کر لی جاتی ہے۔ اس عمل کا فائدہ با اثر اور طاقتور افراد اٹھا لیتے ہیں اور شریف النفس، اصولوں کی پاسداری کرنے والے افرد ان اوچھے ہتھکنڈوں سے شکست کھا کر اسمبلیوں سے باہر ہو جاتے ہیں۔

اس طرح عموماً رقبے کے لحاظ سے بڑے مگر آبادی کے لحاظ سے چھوٹے صوبوں مثلاًبلوچستان، خیبرپختونخواہ اور سندھ کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ جاتی ہے۔ اگر اسمبلیوں میں نیا خون لانا ہے، اگر پاکستان کو واقعی ترقی کی راہ پر گام زن کرنا ہے، چند گندی مچھلیوں سے چھٹکارہ پانا ہے اور چاروں صوبوں کی بزعمِ خود نمائندہ جماعت ہونے کے دعویداروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہے تو ان انتخابی اصلاحات کو فی الفور لاگو کرنا ہو گا۔ کم آبادی والے صوبوں کو آبادی کے تناسب سے زیادہ نمائندگی دینی ہو گی ان کا زیادہ کوٹا یا زیادہ نشستیں مختص کرنی ہوں گی۔ آئندہ آنے والے بجٹ کی تمام صوبوں کے درمیان منصفانہ تقسیم کے لئے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔ ان تجاویز پر عمل کیے بغیر چھوٹے صوبوں کی ترقی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہو گا۔ ا یساکیے بغیر نئے پاکستان کا خواب کسی طور پورا نہیں کیا جا سکے گا۔ اس طرح کے انتخابات سے جو جماعت ابھر کر سامنے آئے گی وہ ہی صحیح معنوں میں چاروں صوبوں کی نمائندہ سیاسی جماعت ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).