سیاست، عورت، خواجہ سرا اور طوائف کی اولاد


اگر مضمون کے عنوان پر نظر پڑتے ہی آپ نے اندازہ لگالیا ہو، کہ اس میں عورت کے جنسی مسائل اور اس کا حل ہوگا، تو ایسانہیں ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مضمون میں خواجہ سراء کی جنسی پیچیدگیوں، دوران حمل اس کی ساخت یا مشرقی معاشرے کا ان پر جبر کے بارے تفصیل درج ہے تو ایسا بھی نہیں ہے۔ اور اگر آپ کا خیال ہے کہ یہ مغل بادشاہوں کے فیصلوں میں طوائفوں کا اثررسوخ یا موجودہ لاہور کے قدیم بازار ہیرا منڈی کے طوائفوں کی کوٹھی والی زندگی پر ایک فحش تحریر ہوگی تو بھی آپ غلط سوچ رہے ہیں۔ تو آخر یہ مضمون ہے کس بارے میں؟

اس تمہید سے میرا مقصد یہ ہے کہ جن لوگوں نے فحش تحریر سمجھ کر لنک پر کلک کیا ہے۔ وہ فورا واپسی کا بٹن دبائیں کیونکہ یہ ایک خالص سیاسی مضمون ہے۔ ہمارے معاشرے میں مردوں کی لڑائی میں گالی عورت، خواجہ سراء، حقیر جانور اور طوائف کی دی جاتی ہے۔ اپنے ایک ویڈیو بیان میں سابق صدر پرویزمشرف نے بلاول بھٹو کو عورت کہا ہے۔ شیخ رشید احمد نے خواجہ سرااور بلو رابی کہاتھا۔ جبکہ دودن پہلے خیبر پختونخواء کے سابقہ وزیر اعلی پرویز خٹک نے پی پی پی کا جھنڈا لگانے والوں کو طوائف کی اولاد کہا۔ خٹک صاحب نے شیخ رشید احمد اور خواجہ آصف کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑتے ہوئے واضح کیا کہ اپنے گھر پر پیپلزپارٹی کا جھنڈا لگانے سے بہتر یہی ہے کہ اپنے گھرکے عورتوں پر جسم فروشی کا دھندہ کرایا جائے۔ ان سب سے افسوس ناک حرکت یہ تھی کہ ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے بلاول بھٹو کی نیم برہنہ حالت میں تصاویر فوٹو شاپ سے ایڈیٹ کر کے وائرل کر دیے۔

پرویز خٹک صاحب اگر راولپنڈی کے پیرودھائی آڈہ اور پشاور کی حاجی کیمپ آڈہ کے ٹرانسپورٹ ڈرائیوروں سے بھی گندی زبان استعمال کرتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ خٹک صاحب دسویں جماعت تک پڑھے ہیں لیکن ایک سیاسیات کا ماسٹر شیخ رشید اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ہائی کوالیفائڈ پرویز مشرف کا ایسی بازاری زبان بولنا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والی نسلیں موجودہ دور کی تاریخ کے باب پر سرخ رنگ میں 18+ یعنی اٹھارہ سال سے کم عمرافراد نہ پڑھیں لکھ دیں۔ کیونکہ خواتین کو ٹریکٹر ٹرالی کہنا، ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں اور نااہل، چور، ڈاکو، کرپٹ اور شرابی وغیرہ کے القابات سے نوازنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی سیاست ابھی بلوغت کے فیز میں داخل نہیں ہوئی۔

سیاسی قائدین کی ایک دوسرے پر لفظی ڈرون داغتے دیکھ کر کارکن بھی ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ کارکنوں کی عدم برداشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ دن قبل کراچی میں کچھ سیاسی کارکنوں نے دوسری سیاسی جماعت کی تذلیل کے لئے گدھے پر ان کے لیڈر کا نام لکھا اور پھر اس پر وحشانہ تشدد کیا۔ بدلے میں مخالف سیاسی جماعت کے کارکنوں نے ان کے لیڈر کی تصاویر والے پوسٹر کتے کی جسم پر لگا دیے۔ جس کا مقصد مخالف سیاسی جماعت کے قائد کی تذلیل کرنا تھی۔

ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا حصوصا فیس بک ہر سیاسی جماعت کے کارکن دوسرے پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ انتخابات لڑنے کے لئے آئین سے ختم نبوتﷺ کی شق آپ نے نکالی ہے۔ یہ پروپیگنڈا اتنی صفائی سے ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف اخبار کی ہیڈ لائنز یا نجی چینلوں کے ٹکرز شئیر کیے جاتے ہیں۔ یہ ہیڈ لائنز یا ٹکرز فوٹو شاپ میں اتنی مہارت سے ایڈیٹ کیے گئے ہیں کہ کبھی کبھی میں خود بھی ان پر یقین کر لیتا ہوں۔ اس بارے میں اب تک تقریبا میں نے ہر سیاسی جماعت کی دوسری جماعتوں کے خلاف پوسٹس دیکھ چکا ہوں۔

پاکستانی سیاست میں گالی گلوچ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ستمبر 1950 میں لیاقت علی خان نے حسین شہید سہروردی کے بارے میں جو زبان استعمال کی وہ قدرت اللہ شہات کی کتاب شہاب نامہ میں یوں درج ہے۔ بے شک ہمارے دشمنوں نے یہ کتے ہمارے خلاف بھونکنے کے لئے چھوڑ رکھے ہیں۔ یہ لوگ وطن کے غدار ہیں، منافق ہیں، جھوٹے ہیں۔ یہی نہیں 1965 ء کی صدارتی الیکشن میں ایوب خان کا مقابلہ مس فاطمہ جناح سے تھا۔ چونکہ مس فاطمہ جناح کے چاہنے والوں کی تعداد ایوب خان سے کئی گنا زیادہ تھی اس لئے انہوں نے مادرملت کے خلاف انتہائی شرمناک پروپیگنڈا کیا۔ جسے لکھنے کی مجھے میرا دل اجازت نہیں دے رہا۔

معروف فلسفی خلیل جبران لکھتے ہیں، اس نے کہا میں نے مان لیا، اس نے زور دے کر کہا، مجھے شک ہوگیا، اس نے قسم اٹھائی مجھے یقین ہوگیا یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ کہتے ہیں انسان دو سال میں مکمل بولنا سیکھ لیتا ہے۔ لیکن کون سا لفظ کہاں بولنا ہے اس میں عمر گزر جاتی ہے۔ سردار دو عالمﷺ فرماتے ہیں کہ کسی سے میٹھی بات کرنا بھی صدقہ ہے۔ شیریں اور شائستہ زبان انسان کی اچھی شخصیت کا آئینہ دار ہوتی ہے۔ الفاظ انسان کے غلام ہوتے ہیں لیکن بولنے کے بعد انسان الفاظ کا غلام بن جاتاہے۔ یہ سنہرے اور شائستہ الفاظ کا چناو ہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر راج کیا جاتا ہے، دوسری صورت میں انسان کا وہی حال ہوتا ہے جو 26 نومبر 2015ء کو صدر مملکت ممنون حسین کا علماء کرام کو ہاوس بلڈنگ کے قرضے پر سود کی گنجائش نکالنے کی تجویز کے بعد ہوا، 22 جنوری 2017 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کو روئے زمین کا سب سے بے ایمان طبقہ کہا، جون 2016 کو آصف علی زرداری نے نام لئے بغیر فوج کو خبردار کیا کہ اگر ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو جرنیلوں کے خلاف حقائق کو منظرعام پر لائیں گے۔

ان سب بیانات کے بعد ان لیڈروں کو اپنے الفاظ واپس لینے پڑے یا انہیں ان الفاظ کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا۔ چونکہ لیڈروں کی باتیں تاریخ کا حصہ ہوتی ہے اس لئے انہیں بولنے اور بیانات دینے میں کافی احتیاط کرنی چاہئے۔ ہمیشہ منہ سے ایسے الفاظ نکالنے چاہئے جو اگر کھبی واپس بھی لینے پڑے تو کڑوے نہ لگیں۔

پس نوشت: اس مضمون میں عمران خان کے بیانات کو اس لئے زیر بحث نہیں لایا گیا کیونکہ لکھاری نے ان کی باتوں کو سیریس لینا چھوڑ دیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).