سینما کے باہر ‘بائیکاٹ علی ظفر، بائیکاٹ طیفا ان ٹربل’ کے نعرے کیوں؟


پاکستان کے معروف فلم سٹار، گلوکار اور ماڈل علی ظفر کی نئی فلم ‘طیفا اِن ٹربل’ کا جمعرات کو کراچی میں جب پہلا شو پیش ہوا تو سینیما کے باہر ان کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

اس موقعے پر نیوپلیکس سینیما کے باہر موجود چند نوجوانوں نے ان کے خلاف احتجاج کیا اور’بائیکاٹ علی ظفر، بائیکاٹ طیفا ان ٹربل’ کے نعرے لگائے۔

اس احتجاج کی وجہ علی ظفر پر اپریل میں لگائے جانے والے جنسی ہراس کے وہ الزامات ہیں جو معروف گلوگارہ اور ماڈل میشا شفیع کی جانب سے عائد کیے گئے تھے۔

سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سینیما کے داخلی دروازے پر کئی لوگ ہاتھوں میں بینرز لیے کھڑے ہیں جبکہ سینیما کی انتظامیہ کی جانب سے پولیس کی نفری اور نجی گارڈز بھی وہاں پر موجود ہیں۔

فلم کے پریمئیر شو کے لیے نیو پلیکس سینیما میں موجود فلمساز اور صحافی حسن زیدی نے اپنی ٹویٹ میں احتجاج کی ویڈیو لگائی اور لکھا کہ کہ وہ اتنی تعداد میں احتجاج کرنے والوں کی موجودگی سے متاثر ہوئے ہیں۔

ڈان ڈاٹ کام سے وابستہ مدیرہ حمنا زبیر بھی وہاں موجود تھیں اور انھوں نے اپنی ٹویٹس میں احتجاج کرنے والوں میں مردوں کی زیادہ تعداد کو خوش آئند قرار دیا لیکن ساتھ ساتھ سینیما کی انتظامیہ کی جانب سے تعینات گارڈز کی بدتمیزی کا بھی ذکر کیا اور کہا انھوں نے لوگوں کو دھکے دیے اور ان کے سمیت کئی لوگوں کے فون بھی چھینے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ فلم دیکھنے کے لیے نہیں گئی تھیں لیکن انھیں علم تھا کہ وہاں پر لوگ علی ظفر کے خلاف احتجاج کرنے جمع ہو رہے ہیں تو وہ خود اس کا مشاہدہ کرنے گئیں۔

‘یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ لوگ وہاں جمع ہوئے اور احتجاج کیا۔ ہم عام طور پر سنتے ہیں کہ متوسط طبقے یا اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاسی اور سماجی طور پر زیادہ شعور نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کی پروا کرتے ہیں لیکن یہاں پر ہم نے دیکھا کہ نوجوان شو بزنس میں جنسی طور پر ہراس کیے جانے کے معاملے پر جمع ہوئے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اور معاملات اور مسائل کے لیے بھی اسی طرح کھڑے ہوں گے۔’

اس سے پہلے کراچی میں بدھ کی شب بھی علی ظفر اور ان کی جانب سے فلم کے لیے کی جانے والی تشہیری مہم کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں جمعے کو لاہور میں فلم کے شو سے قبل بھی سنے سٹار سینیما کے باہر احتجاج کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور اس کے منتظمین میں سے ایک نے بی بی سی کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتیں کہ کتنے لوگ آئیں گے لیکن انھوں نے امید ظاہر کی کہ وہاں ایک بڑی تعداد میں لوگ موجود ہوں گے۔

‘کم از کم میں نے جن لوگوں سے بات کی ہے ان سب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ آئیں گے۔’

اس تنازعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘جنسی ہراس ایک سنگین معاملہ ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ملوث افراد کا احتساب کیا جائے بھلے سے وہ کتنے ہی طاقتور ہوں۔’

انھوں نے کہا کہ ان الزامات کے بارے میں وضاحت لینا فلم کی کامیابی سے زیادہ ضروری ہے اور اس کے لیے صرف ’طیفا ان ٹربل‘ ہی نہیں بلکہ علی ظفر کی جانب سے کیے گئے تمام کام کا بائیکاٹ کیا جانا ہو گا۔

‘اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود اپنی خواتین کا خیال کریں اور انھیں ان کا حق اور انصاف دلائیں کیونکہ عدالتوں سے انصاف ملنے کی امید نہیں ہے۔’

دوسری جانب فلم میں علی ظفر کی ساتھی اداکارہ مایا علی نے چند روز قبل بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ضروری ہے کہ ‘جب تک کہانی کے دونوں رخ نہ نظر آئیں، تب تک فیصلہ نہ سنائیں۔’

یاد رہے کہ اپریل میں میشا شفیع نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ الزام لگایا تھا کہ ‘میری ہی انڈسٹری میں میرے ساتھ کام کرنے والے ایک ساتھی نے مجھے ایک سے زیادہ بار جنسی طور پر ہراساں کیا ہے: علی ظفر نے۔ یہ سب تب نہیں ہوا جب میں چھوٹی تھی، یا انڈسٹری میں نئی تھی۔ یہ میرے ایک پراعتماد، کامیاب، اور چپ نہ رہنے والی عورت ہونے کے باوجود ہوا۔ یہ میرے ساتھ دو بچوں کی ماں ہونے کے باوجود ہوا!’

علی ظفر نے اس الزام کی فوری تردید کی تھی اور میشا کی ٹویٹ کے چند روز بعد ان کو نام ہتک عزت کا نوٹس بھجوایا اور ان سے وہ ٹویٹ حذف کرنے کا مطالبہ کیا یا بصورت دیگر 100 کروڑ ہرجانہ ادا کرنے کو کہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32485 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp