کس کو ووٹ دیں؟


کسے ووٹ دیں یہ بھی ایک بڑی تعداد کے لئے بڑا سوال ہے، سیاسی اعتبار سے کوئی واضع نظریات کا معاملہ اب زیادہ رہا نہیں، کہانی تھوڑی سے تبدیل ہوگئی ہے، مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کے درمیان خصوصاً پنجاب میں مقابلہ ہے صرف دینی وابستگی اور جذباتیت کی بنیاد پر دو سے تین فیصد لوگ منقسم ہیں۔

پیپلزپارٹی کا ووٹ پہلے ہی تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کی پناہ میں جاچکا ہے، اس میں 75 اور 25 فیصد کی تقسیم ہے۔ دس سے بیس فیصد پیپلزپارٹی کا جیالا اب تک پارٹی کے ساتھ ہے۔ وہ بھٹو کی پارٹی کو ہی اپنی آخری پناہ گاہ سمجھے ہے۔

ووٹ ڈالنے والی ایک بڑی اکثریت رجحان دیکھتی ہے کس کا پلڑا بھاری ہے اس پر ہاتھ رکھ دیتی ہے۔ لاہور میں چونکہ ن لیگ کی اکثریت رہی ہے اس لیے یہاں جن حلقوں میں تحریک انصاف کی پوزیشن بہتر ہے وہاں بھی اس ووٹر کو مشکلات کا سامنا ہے اسے ان باتوں پر ابھی تک یقین نہیں ہوپارہا کہ پی ٹی آئی جیت جائے گی، لیکن کچھ نے فیصلہ کرلیا ہے اور وہ بڑے وثوق سے بلے کی کامیابی کے دعویداروں میں شامل ہوچکے ہیں۔ نون لیگ کا پکا ووٹر کسی بات پر کان نہیں دھرتا اسے نواز شریف شہباز شریف یا کسی اور بات سے بہکا نہیں سکتے، وہ اپنی جگہ اٹل کھڑا ہے، اس کو جیت کا پورا یقین ہے یا پھر وہ یہ جان چکا ہے کہ اس کی جماعت کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے، وہ ان خدشات کو برملا ذکر کردیتا ہے۔

ووٹ کسے ڈالیں یہ تعداد اگرچہ زیادہ نہیں لیکن ان میں مایوس ووٹر بھی ہیں جنہیں یہ پریشانی لاحق ہے کہ جسے ووٹ دوں گا وہ ہار نہ جائے۔

پیپلزپارٹی کے جیالے جنہوں نے ہجرت کرلی ہے اور بڑے فخر سے کپتان کے کھلاڑی بن چکے ہیں، انہیں نون لیگ کے خلاف اپنی فتح کامکمل بھروسہ ہے اور وہ خود کو سیاسی اعتبار سے جیسے بہت زیادہ محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔

جنہیں سیاست کا چسکا ہے وہ سیاسی یتیمی سے بچنے کے لئے کسی سائبان کے منتظر تھے، ایسا ہی کچھ کافی پہلے جماعت اسلامی کے لوگوں نے ہجرت کی تھی اور ناکامی کا لبادہ اتار کر کامیابی کی علامت نواز لیگ میں پناہ ڈھونڈ لی، پھر اسی طرح ان کا ایک بڑا حصہ تحریک انصاف میں شامل ہوگیا۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں الیکٹ ایبلز نہیں، ون وشر، جیت کے خواہشمند کہاجاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنا آپ محفوظ بنالیا۔

کسی ڈوبتی کشتی میں سفر بھی دانشمندی نہیں، لیکن سیاست میں ایسا نہیں ہوتا ڈگمگانے والے پھر سنبھل جاتے ہیں، سیاست بڑے صبر وتحمل کا تقاضا کرتی ہے، اس میں وہی کامیاب ہوتے ہیں جو مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

کچھ ووٹر غصے اور ردعمل میں ووٹ دیتے ہیں کسی پالیسی سے اختلاف سوچ کا میل نہ کھانا دوسرے دھڑے کی جانب جانے کا باعث بن جاتا ہے۔ ایک محدود تعداد جو کسی اپ سیٹ کا باعث بن سکتی ہے وہ نون لیگ کے ردعمل میں مذہبی جماعت کو ووٹ دینے پر آمادہ دکھائی دے رہی ہے۔

ووٹ ضائع ہونے کا تاثر بھی غلط ہے کہ کسی ہارتی جماعت یا امیدوار کو ووٹ دینا اسے ضائع کرنا ہے ایسا نہیں اپنی رائے دینا درست ہے اس سے انکار کرنا غلط ہے۔ ووٹ چاہے کسی کو دیں وہ ضائع نہیں ہوگا۔

ایسے بے شمار لوگ ملے ہیں جنہوں نے اپنی پسند کی جماعت کے حق میں رائے دی جن کا کہیں دور دور تک جیت کا امکان نہیں۔ لیکن وہ کسی پوائنٹ پر اس جماعت یا امیدوار کی حمایت کرتے ہیں۔

ووٹ دیتے وقت چند معیار مدنظر رکھنے چاہیئں، کسی کو بھی دیں، اس کی اچھی باتیں آپ کو معلوم ہوں محض دوسرے کی بری باتوں اور پروگرام کی ضد میں ووٹ دینا بھی درست نہیں۔

سیاسی ذھن سازی کا عمل بہت کم ہوتا ہے ایک دوسرے پر الزام بہتان اور رقیق حملوں کے نتیجے میں خود کو دوسرے سے بہتر ظاہر کرنے کے مقابلے میں ووٹر کنفیوز ہوجاتا ہے ویسے بھی اچھے برے کی تمیز اس معاشرے میں مشکل ہوجاتی ہے جہاں مکالمے کا عمل اور ایک دوسرے کو برداشت کامزاج زوال پذیر ہو۔ جمہوریت محض بولنے سے نہیں کچھ کرکے دکھانے سے آتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے ووٹ ڈالنا خالصتاً جمہوری عمل ہے اس میں شرکت ہر صورت ممکن بنانی چاہیے، فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے، نتائج کو بہت زیادہ ذھن میں نہیں رکھنا چاہیے،

ووٹ کس کو دیں، اس کو مسئلہ بنانے کی ضرورت نہیں، جسے بہتر سمجھتے ہیں، اس کے حق میں فیصلہ کردیں اس کی جیت یا ہار جانے کے بارے میں زیادہ فکرمند نہ ہوں۔ بس ایک بات ممکن بنائیں کہ اس عمل سے خود کو الگ تھلگ نہ کریں،

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar