جناب چیف جسٹس صاحب کے بیانیہ کے جواب میں


”گزشتہ دنوں جناب چیف جسٹس صاحب کا ایک حکم نامہ تعلیم کے حوالے سے میڈیا کے ذر یعہ مشتہر ہواکہ تمام نجی اسکولوں کو دو مہینے کی فیس نہ لینے کا پابند کیا جائے، نا صرف یہ بلکہ ان کا کہنا تھا میری خواہش تو یہ ہے کہ ان نجی اسکولوں کو نیشنلائزاڈ کر دیا جائے تاکہ سرکاری اسکول کے تمام طلباء کو یکساں تعلیم دی جاسکے۔ ‘‘
واقعی اس لحاظ سے یہ فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ جس طرح ان نجی اسکولوں فیسوں اضافہ کیا ہے وہ یقینابہت زیادہ ہے

دوسری طرف ان کی یہ خواہش کہ ان نجی اسکولوں کو نیشنلائزڈ کردیا جائے کہ تمام بچے یکساں تعلیم حاصل کرسکیں تو جناب چیف جسٹس صاحب سے مودبانہ گزارش یہ ہے کہ اگر چہ یہ نجی اسکول فیس بہت زیادہ لے رہے ہیں لیکن یہاں ایک بات جو بہت غور طلب ہے وہ یہ کہ یہاں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہ ایک سرکاری اسکول کے استاد سے کہیں قلیل ہے اس کے باوجود یہ اساتذہ بہتر تعلیم دے رہے ہیں جس کا فرق سب پر عیاں ہیں کہ نجی اسکول کا ٹیچر طلباء سے زیادہ محنت کرتا ہے اور اسے اپنے سبجیکٹ پر مکمل گرفت حاصل ہوتی ہے جو کہ ان اداروں میں ملازمت کے لیے اولین شرط ہے پھر اتنی کم تنخواہ میں کیسے ٹیچرز اتنی محنت کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان نجی اسکولوں کا نظام نہایت مربوط ہے جس میں سلیبس سے لے کر امتحان کا نظام شامل ہے جس کی وجہ سے یہاں کے طلباء زیادہ ذہین ہوتے ہیں

بات کہنے کی یہ ہے کہ جو اسکول 70 کی دہائی میں نیشلائزڈ کیے گئے تھے ذرا ان پر بھی نظر ڈالیے، ان کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری اسکول میں بھرتی کے اصول کو صاف شفاف بنایا جائے جس طرح اس وقت روپیہ دے کر سیٹ حاصل کر لی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں ہر وہ شخص جو کہیں ملازمت نہیں کرسکتا وہ استاد بن جاتاہے جبکہ اس کے برعکس نجی اسکولوں میں اس بنیاد پر ملازمت دی جاتی ہے کہ استاد کو اپنے سبجیکٹ پر مکمل عبور حاصل ہو بہ صورتِ دیگر اگر وہ آبزرویشن پر پورے نہیں اترتے انھیں ملازمت نہیں دی جاتی

دوسری طرف سرکاری اسکولوں کی ملازمت کا طریقہ ء کار ہے کہ جہاں سارا زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ ایک سیٹ کے لیے کون کتنا روپیہ ادا کرسکتا ہے پھر چاہے وہ انگوٹھا چھاپ ہی کیوں نہ ہو۔ نجی اسکول کے اساتذہ صرف معمولی تنخواہ پر کام کرتے ہیں جبکہ گورنمنٹ اسکول کے اساتذہ کی تنخواہ کے علاوہ ان کو ملنے والی دوسری مراعات جن میں پراویڈنٹ فنڈ اور پینشن شامل ہیں وہ ان کے مسقبل کو محفوظ بناتی ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ اس صورتِ حال میں سرکاری اسکول نجی اسکول کے لیے مثال ہوں تاکہ وہ لوگ جو ان نجی اسکول میں اپنے بچوں کو پڑھانے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ اس مثال کو دیکھتے ہوئے اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں داخلہ دلوانے پر مجبور ہوجائیں۔ نئے تجربے کرنے سے بہتر ہے کہ موجودہ نظام کو بہتر بنایا جائے۔ تعلیم ایک بنیادی ستون ہے۔ اور اگر بنیاد ہی کمزور ہوگی تو باقی عمارت تو کبھی بھی زمیں بوس ہوسکتی ہے

لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پڑھے لکھے اور باصلاحیت لوگوں کو ہی بھرتی کیا جائے۔ جو بھرتی کے ان اصولوں پر پورے اترتے ہیں۔ اور جو صرف اس لیے ملازمت حاصل نہیں کرسکے کہ وہ سفارش اور رشوت پر یقین نہیں رکھتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).