سفارت کاروں کو کپتان کے اپنی پانچوں سیٹوں سے ہارنے کی خبریں


الیکشن کی جتنی مٹی رولی جا چکی ہے۔ اس کے بعد لگ نہیں رہا کہ اس کے نتائج سب مانیں گے۔ ایک کے علاوہ سب ہی سیاسی پارٹیاں سڑی جلی بیٹھی ہیں۔ ان کی جلتی پر تیل ڈالنے کو انٹرنیشنل آبزرور پاکستان میں لینڈ کر چکے ہیں۔

یہ تقریباً پانچ چھ سو لوگ ہیں جو الیکشن کے نظارے کرنے آئے ہیں۔ ہم خیر سے اپنا الیکشن بھی چندہ لے کر کراتے ہیں۔ پہلے تو یو این ڈی پی فنڈ کرتی تھی۔ اس بار پتہ نہیں کیا کیا ہے۔ پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ بتانا صرف اتنا ہے کہ جب ہم الیکشن بھی فنڈنگ لے کر کرائیں گے تو آبزرور پھر لازمی آئیں گے، ان کا جائزہ لینے۔

انٹرنیشنل آبزرویشن بھی کسی طریقہ کار کے تحت ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ قنات اٹھائی اور جھاتیاں مارنی شروع کر دیں۔ پھر رپورٹ لکھ دی کہ بہترین یا بدترین کام ہو گیا۔ آبزرورز  کے لیے لازم تھا کہ وہ چھ ہفتے پہلے پہنچتے تاکہ پورے عمل کا جائزہ لیتے۔ ان کے اجازت ناموں کی فائلیں ہی اتنی گھمائی گئیں کہ وہ الیکشن سے دو ہفتے پہلے ہی پہنچ سکے۔

اب وہ مجبور ہیں کہ پہلی لائین میں تو یہ لکھیں کہ ہمیں کوئی پتہ نہیں کہ چار ہفتے کیا ہوتا رہا۔ کچھ الٹ ہی ہوا ہو گا جو ہمیں نہیں آنے دیا گیا۔ باقی کا سیاپا وہ ہمارے سیاسی کارکنان سے پوچھ پوچھ کر ڈالیں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کسی کو بھی کسی بھی سیٹ سے الیکشن ہرانا ناممکن نہیں۔ اس کی ایک قیمت ہے جو ادا کرنی پڑے گی۔ ایک روٹ ہے جو اختیار کرنا ہو گا۔ نہ نواب شاہ میں زرداری کی سیٹ محفوظ ہے نہ لاڑکانہ میں بھٹو ناقابل شکست نہ لاہور میں شریف۔ اب تو عزیز آباد بھی الطاف حسین کا پکا نہیں رہا۔

اگر الیکشن لڑنا کوئی سائنس ہے تو مسلم لیگ نون میں پھر سارے ہی ڈاکٹر ہیں۔ الیکشن سائنس پر نون کا ذکر اس لیے زیادہ ہوتا کہ وہ پنجاب کی نمائندہ ہے۔ ورنہ سندھ میں پی پی اور متحدہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔

مسلم لیگ نون نے بدترین حالات میں بھی خود کو بچا کر الیکشن تک پہنچا لیا ہے۔ اس بچنے بچانے میں میاں صاحب مریم سمیت اندر ہو گئے ہیں۔ حنیف عباسی کو قید بول گئی ہے۔ کیپٹن صفدر بھی جیل میں ہیں۔ چوھدری نثار جیپ سٹارٹ کرتے پھر رہے۔ بہت سے امیدوار بھاگ چکے ہیں۔ پھر بھی نون لیگ قائم دائم ہے۔ میدان میں ہے الیکشن جیت جانے کے لیے پوری طرح سرگرم ہے میدان میں ہے۔ جب تک اس کی ہار کا اعلان نہ ہو جائے یہ بازی پلٹ سکتی ہے۔

الیکشن کو یہ پہلے ہی متنازع بنا چکی ہے۔ سیاست کی بیٹ کور کرنے والے سیاست کو فالو کرنے والے سب اک بات پر پکے ہیں۔ وہ یہ کہ اگر نون کو اک حد سے کم سیٹ ملیں تو پھر اک تحریک چل کر رہے گی۔ اگر پی ٹی آئی کو اک قابل قبول حد سے زیادہ سیٹ ملیں تب بھی احتجاج لازمی ہو گا۔

اس احتجاج میں پی پی بھی شامل ہو گی اگر وہ سندھ سے ہار گئی۔ پی پی سندھ سے ہار جائے اب الیکشن کے قریب یہ بات ممکن ہی لگ رہی ہے۔ وجہ یہی کہ پی پی گھیرے میں آ چکی ہے۔ اس کے خلاف اتحاد بن چکے ہیں۔ اس کے امیدواروں کے ساتھ بری ہو رہی ہے کئی جگہ پر۔ بختاور کو اپنے والد آصف زرداری کے لیے ووٹ مانگنے گوٹھ گوٹھ پھرنا پڑا ہے۔

سیاستدان ایسی ڈھیٹ روح ہوتے ہیں کہ وہ ہار کر بھی نہیں ہارتے۔ وہ اپنی ہار کی وجوہات غلط بیان کرتے ہیں۔ کمال دیکھیں کہ پھر یہ منوا بھی لیتے ہیں۔ حالات کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ سیاست مینیج کرنے والے اتنے تجربات کے بعد بھی نہ تو لوگوں کو ڈیل کرنا جان سکے ہیں۔ نہ حالات کو اپنے حق میں استعمال کرنا سمجھ پائے ہیں۔

مسلم لیگ نون کی ہوا اکھاڑنے کو یہی کافی تھا کہ اس کے امیدوار بھاگ گئے۔ یہ امیدوار زیادہ تر قومی اسمبلی کی سیٹون سے بھاگے ہیں۔ صوبائی والے قائم ہیں، مضبوط ہیں کھڑے ہیں اور پوری طرح سرگرم ہیں۔

مسلم لیگ کی اصل طاقت اس کے منتخب کونسلر ہیں۔ ان کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے۔ ان میں سے سینکڑوں کی تعداد میں بھی نہیں ٹوٹ سکے۔ مقامی حکومتوں کو معطل کر کے انہیں مزید سختی سے اپنی پارٹی کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ وہ اپنی پارٹی کے ساتھ جی جان سے محنت کر رہے۔ خدشہ انہیں یہ بھی ہے کہ کہیں کپتان آ گیا تو بلدیاتی ادارے ہی توڑ دے گا۔ پھر گھر ہی بیٹھنا ہو گا۔

ان کونسلر حضرات نے ہی ہر پولنگ سٹیشن پر مسلم لیگ نون کو پولنگ ایجنٹ فراہم کر دیے ہیں۔ پولنگ ایجنٹ سے یاد آیا کوئی جائے اور ذرا پتہ کرے کہ پورے لاہور میں کتنے پولنگ ایجنٹ ہیں پی ٹی آئی کے جو بغیر معاوضے کے ملے ہیں۔ یہ پتہ کر کے یقیناً ہر صحافی ہر سیاسی کارکن کو شرم آئے گی کہ یہ تبدیلی لانے والی پارٹی کے حالات ہیں۔

یہ جاننا بھی پریشان کن ہو گا کہ پی ٹی آئی کہ بلدیاتی الیکشن لڑنے والے امیدوار اب کدھر ہیں۔ ان میں سے کتنوں  نے پارٹی کے لیے دفاتر کھولے ہیں۔ ذرا یہ حساب کتاب پی ٹی آئی کے تگڑے امیدواروں کے حلقوں میں لگا کر دیکھیں سب پتہ لگ جائے گا۔ یاسمین راشد کے حلقے میں ہی دیکھ لیں۔

پی پی مسلم لیگ نون جے یو آئی تو تیار ہیں۔ الیکشن نتائج قابل قبول نہ ہوئے تو اکٹھی ہو جائیں گی۔ تحریک چلائیں گی اگلی حکومت کا ناک میں دم کر دیں گی۔ ان کے مزے حرام کر دیں گی۔ پی ٹی آئی کے ساتھ ایک بڑا باریک کام ہوا ہے۔ کپتان کو پانچ حلقوں سے کھڑا کیا گیا ہے۔ کسی ایک حلقے پر بھی اس کی جیت حتمی نہیں ہے۔ سیاست کے اس تازہ ولی کو اس کی پارٹی نے بری طرح پھنسا دیا ہے۔

سروے بتا رہے ہیں کہ کراچی بنوں سے تو کپتان ہار رہا ہے۔ اسلام آباد میانوالی سے جیت بتائی جا رہی ہے۔ کپتان کے قریبی لکھاری یہاں سے جیت تو بتا ہی رہے۔ فتح سناتے گیت بھی لکھ رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون بہت ریلیکس ہے کہ خواجہ سعد رفیق گج وج کر اور شاہد خاقان عباسی خاموشی سے کپتان کو ہرا دیں گے۔

میاوانوالی کی ایک سیٹ ہے جہاں سے کپتان کی جیت دکھائی دے رہی۔ لیکن عبیداللہ شادی خیل ایسے بھی گئے گزرے امیدوار نہیں۔ ضمنی الیکشن میں وہی جیتے تھے جب کپتان سے سیٹ خالی کی تھی۔ وہ تب جیت گئے تھے جب کپتان نے جنرل الیکشن سے زیادہ وقت ضمنی الیکشن میں محنت کی تھی۔

اسلام آباد سے بے خبر اور  بے وثوق ذرائع اصرار سے کہہ رہے ہیں کہ کپتان پانچوں سیٹ سے ہار جائے گا۔ اس کی ہار کےساتھ ہی وہ پاکستان کی ساری مقبول قیادت پارلیمنٹ سے باہر ہو جائے گی۔ راوی چناب اٹک کابل سب چین لکھیں گے۔

مہربانی کر کے اگر ایسے منصوبے کوئی بنا نہیں رہا تو نگرانوں کے منہ بند کرائے جو جا کر الٹی سیدھی کہانیاں سفارتکاروں کو سناتے ہیں۔ مسلم لیگ تو پتہ نہیں الیکشن ہارنے پر کوئی تحریک چلا سکے گی یا نہیں۔ کپتان اگر ساری سیٹوں سے الیکشن ہار گیا تو کوئی نہیں مانے گا، کہرام مچ جائے گا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi