جرمن الیکشن 1933 اور پاکستان الیکشن2018


مغربی یورپ میں واقع ملک جرمنی سے کون واقف نہیں؟ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اتحادی ریاستوں(برطانیہ، فرانس، امریکہ) سے مقابلہ کرنے والی ریاست جرمنی۔ اور ان جنگوں کے بعد معاشی و سیاسی عدم استحکام کا سامنا کرنے والی ریاست جرمنی۔ اور ان مشکلات میں جرمنی کو استحکام دینے والی شخصیت ایک جرمن ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر سے ہم سب ہی واقف ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہٹلر ایک سیاسی رہنما کے طور پر سامنے آیا اور نازی پارٹی کی بنیاد رکھی اور اسی پارٹی نے 1933 کے انتحابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی اور ہٹلر چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے۔

اب اگر بات کی جائے پاکستان کی جو 1947 میں آزاد ہوا جس کی تاریخ کے بیشتر سال مارشل لاء کی نظر ہو گئے۔ اور آج پاکستان وہی عدم استحکام کا شکار ہے جسے 1933 میں جرمنی تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جرمنی کے 1933 کے الیکشن اور پاکستان کے 2018 کے الیکشن میں کیا ربط؟ جی ہاں جرمنی کے الیکشن اور پاکستان کے 2018 کے الیکشن کافی حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔ جسے کہ 1933 میں جرمنی عدم استحکام کا شکار تھا کرنسی ڈیویلیو ہو چکی تھی اور سیاسی بحران الگ۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے حالات بھی کچھ ایسا ہی بتاتے ہیں سیاسی و معاشی بحران، ڈالر 130 روپے اور پاکستانی روپیہ ڈیویلیو۔

دوسری طرف جرمنی کے 1933 کے الیکشن میں کئی دوسری جماعتوں کے باوجود صرف دو جماعتیں سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی اور سنٹرل پارٹی ہی عوام میں نمایاں اور مقبول رہی لیکن عوام کا اعتماد کسی پارٹی کے ساتھ نہیں اور پاکستان کے 2018 کے الیکشن میں بھی کافی جماعتیں ہونے کے باوجود دو جماعتیں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف ہی عوام کی توجہ کا مرکز ہیں لیکن اعتماد کسی ایک پر بھی نہیں۔ اس لیے الیکشن کے چند دن پہلے بھی عوام اپنے ووٹ کا فیصلہ نہیں کر پا رہے۔

اب بات کی جائے سیاسی رہنماؤں کی تو جرمنی میں ہٹلر جیسی کرشمہ ساز شخصیت اور پاکستان میں وہی موروثی سیاست اور رہنما۔ اب آتے ہیں پارٹی کے منشور اور پروگرام کی طرف جو کے الیکشن میں سب سے اہم اور بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ ہٹلر سے جب اس کے پارٹی منشور اور پروگرام کی بات کی جاتی تو اس کا جواب صرف ایک لفظ ہوتا۔ جرمنی۔ یعنی ہر معاملے میں جرمنی کا مفاد اہم۔ پاکستان میں پارٹی کے منشور اور پروگرام کی بجائے صرف کھوکھلے نعروں پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے اور بھوک مٹاؤ، میٹرو بس، اورنج لائن اور الزامات و تنقید سے ہی عوام کا دل لبھایا جاتا ہے پاکستان کی کسی پارٹی کا واضح منشور و پروگرام نہیں جو پاکستان کو فائدہ پہنچا سکیں۔ پاکستان کی کسی پارٹی کے دوررس مقاصد نہیں اور مقصد صرف اقتدار حاصل کرنا ہے۔

سوچنا اب اس بات پر ہے کہ اگر جرمنی جنگوں کے باوجود صفر پوائنٹ سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ جرمنی میں ہٹلر جیسی قیادت ہو سکتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ ہٹلر نے جرمنی میں 1933 میں نیا فلسفہ نیشنلزم دیا ہمارا فلسفہ اسلامزم تو صدیوں پرانا ہے۔ پاکستان میں صرف واضح نصب العین اور مظبوط قیادت وقت کی اہم اور اشد ضرورت ہے۔ ورنہ 25 جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد حکومت کے وہی پانچ سال وہی ملک کے حالات اور پھر نئے انتخابات۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).