جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور تاریخ کا سبق


بحیثیت قوم ہم نے تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا! برصغیر کو آزادی دینے کے بعد برطانوی حکومت نے ان تمام سول و فوجی افسر ان کو سبک دوش کردیا، جو غیر منقسم برصغیر میں قابض برطانوی حکومت کے لیے خدمات انجام دے رہے تھے۔ جبری طور پر برطرف کیے جانے والے سول و فوجی افسران کے احتجاج پر برطانوی حکومت نے موقف اپنایا، کہ برطانیہ کے سول و فوجی نظام میں ’ آقائی ذہنیت ‘ کے حامل سول و فوجی افسران کو جگہ نہیں دی جاسکتی۔

بوقت قیام پاکستان صورت حال مختلف تھی۔ اس وجہ سے حکومت پاکستان کو اپنے سول و فوجی نظام میں برطانوی حکومت کے لیے خدمات انجام دینے والے سول و فوجی افسران کو نوکر شاہی اور عسکری اداروں میں بحال رکھنا پڑا۔ قائداعظم بر طانوی حکومت کے لیے خدمات انجام دینے والے سول و فوجی افسران کی تربیت اور آقائی ذہنیت سے واقف تھے اور ان کو خدشہ تھا، کہ کہیں نوزائیدہ مملکت ان سول و فوجی افسران کے تسلط میں نہ چلی جائے۔ اس لیے قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بارہاسول و فوجی افسران سے خطاب میں قائداعظم نے ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی، کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے، اور آقائی ذہنیت کے حامل سول و فوجی افسران کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی اور عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنا نا ہوگا۔

لیکن ہوا، اس کے برعکس اور قائد اعظم کا خدشہ درست ثابت ہوا۔ قائد ملت کی شہادت کے بعد سول و فوجی گٹھ جوڑ نے ملک کی چولیں ہلادیں، نتیجتا سابقہ مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوئی اور سقوط ڈھاکہ جیسا سانحہ رونما ہوا۔ آپس میں اقتدار کے حصول کی کشمکش میں مصروف سیاست دانوں کو قیام پاکستان سے لے کر اب تک اسی سول و فوجی گٹھ جوڑ نے تگنی کا ناچ نچایا ہوا ہے۔ لیکن تاریخ سے سبق سیکھنے کو کوئی بھی حکومتی ستون، سیاسی جماعت اور سیاست دان تیار نہیں ہے۔

فوجی آمروں کا ساتھ ہمیشہ اس زمانے کی نوکر شاہی اور عدلیہ نے دیا، اسی طرح فوجی آمروں نے ایسے دانشوران و صحافیان ملت کی فوج تیار کی، جن کے قلم آج بھی فوجی آمروں کی اور چور دروازے سے سیاست میں داخل کیے جانے والے سیاست دانوں کی مدح سرائی اور پشت پناہی سے با ز نہیں آرہے۔ قوم بھی اپنے حال میں خوش ہے اور ہر نیا دھوکا کھانے کے بعد دوسرا دھوکا کھانے کے لیے کمر بستہ ہوجاتی ہے۔ متفقہ آئین کی موجودگی کے باوجود قومی نصب العین کے تعین کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی جانب سے ہر پانچ دس سال بعد کسی آمر، منصف، سیاسی جماعت اور اس کے قائد کی قومی پیمانے پر کردار کشی شروع کر دی جاتی ہے اور حزب اختلاف کے موقف سے اتفاق کرنے والے مقتدر حلقوں، منصفوں اور سیاست دانوں کی مدح سرائی شروع کردی جاتی ہے۔

دانشوران ذرائع ابلاغ بشمول دانشوران سوشل میڈیا نے پانچ سال قبل جس شخصیت کی تعریفوں کے پل باندھے ہوتے ہیں، پانچ سال بعد اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور جس شخصیت کی پانچ سال قبل مخالفت کی ہوتی ہے، اس کے حق میں دلائل دینے کا آغاز کردیتے ہیں۔ یہ صوت حال نشان دہی کرتی ہے، کہ یہ دور سیاسی طور پر پر فتن ہے، اور وطن عزیز سیاسی سطح پر قحط الرجال کا شکار ہے۔ بڑے بوڑھے فتنے کی تعریف میں کہتے ہیں : ” کہ جب قوم کو کسی فتنے کا سامنا ہوتا ہے، تو بڑے سے بڑے دانشور کی مت ماری جاتی ہے۔ ‘‘ اسی پر فتن دور کا قوم اور دانشوران ملت کو سامنا ہے۔ جانتے بوجھتے ہوئے، کہ فلاں شخص حکومتی سطح پر بدعنوانی میں ملوث رہا ہے، قوم اسی شخص کو ووٹ دینے پر آمادہ نظر آتی ہے اور دانشوران ملت اسی شخص کی سیاسی غلطیوں اور بدعنوانیوں کو نظر انداز کرتے نظر آتے ہیں، جس میں وہ ماضی میں ملوث رہا ہے۔

اس کی تازہ مثال اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی ہیں۔ ماضی میں قوم کا ایک بڑا حصہ، ذرائع ابلاغ اور دانشوران ملت جسٹس شوکت عزیز پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں، لیکن ان کے حالیہ موقف اور انکشافات پر ان کو خراج تحسین پیش کرتے نظر آتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ اس شخص کے موقف میں تبدیلی کہیں ذاتی مفاد کی وجہ سے تو نہیں آئی۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حوالے سے بھی قوم، سیاسی جماعتیں اور ذرائع ابلاغ اسی مغالطے کا شکار ہوئے تھے اور بعد میں پچھتاتے نظر آتے تھے۔

فی زمانہ حقیقی جمہوریت کا قیام ہی قومی نصب العین ہونا چاہیے اور قوم کو چاہیے، کہ سیاسی تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے، اپنے ووٹ کے ذریعے ان سیاسی قوتوں کو شکست دیں، جو بد عنوانی میں ملوث رہے ہوں، حصول اقتدار کی خاطر اصولی سیاست کا گلا گھوٹتے ہوں اور سابقہ شفافیت کے نعرے سے انحراف کرتے ہوئے، حصول اقتدار کے لیے مقتدر حلقوں سے گٹھ جوڑ کرتے ہوں، کیونکہ اس گٹھ جوڑ سے اقتدار کی منزل تو حاصل ہوجاتی ہے، لیکن حقیقی جمہوریت اوروطن عزیز کا جو ڑ جوڑ ہل جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).