عمران خان کو آزمانے میں کیا حرج ہے


انتخابات میں صرف دو دن باقی ہیں۔ انتخاب سے پہلے کی صورتحال ایسی پیچیدہ ہو گئی ہے، اور اس پر اتنا کُچھ کہا جا چکا ہے کہ شاید کہنے کو کُچھ باقی نہیں رہا۔ اخباری کالم پڑھئے، تو سوائے طرز بیان کی لذت کے اُن میں کچھ نیا نہ ہونے کے باعث پھپھسے محسوس ہوتے ہیں۔ ٹی وی پر اپنے پسندیدہ تجزیہ کار کو سُننے بیٹھئے تو چند جملوں کے بعد تکرار در تکرار کی وجہ سے چینل تبدیل کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ایسے میں اس انتخاب کے بارے میں کیا لکھا جا سکتا ہے؟ سیاسی پارٹیوں کے جیتنے کے امکانات، اور ممکنہ سیاسی انجینئرنگ کے موضوعات میں تو اب کوئی کشش دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن انتخابات کا ایک پہلو یقیناً ایسا ہے جس پر بات کرنے کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے، اور جس پر شاید سب سے کم باتی ہوتی ہے۔ اور وہ یہ کہ کسی بھی امیدوار یا کسی بھی سیاسی پارٹی کو ووٹ آخر لوگ کیوں دیتے ہیں، اور ہمیں اگر ووٹ دینا ہے تو کیوں دینا چاہیے؟

ووٹ دینے کی عمومی وجوہات میں سے ایک دلچسپ دلیل آجکل بہت عام دی جاتی ہے کہ ہم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں کو آزما چُکے، تو اب عمران خان کو آزمانے میں کیا حرج ہے؟ پاکستان کے ساتھ اس سے پہلے جتنا بُرا ہو چکا ہے، اُس سے بُرا آخر کیا ہوگا؟ جی ہاں بات تو دل کو لگتی ہے۔ اس بار عمران خان کو آزمانے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟ پاکستان کے ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے ووٹ دے، جسے چاہے آزمائے، اور جب چاہے اپنی رائے بدل کر اگلی دفعہ کسی اور کو آزما لے۔ مجھے اس سے کیا؟ مجھے اس کی فکر کیوں ہے کہ آپ کسے ووٹ دیں گے؟ وجہ اس کی بہت سادہ ہے۔ وہ یہ کہ آپ ہی کی طرح مجھے بھی اپنی مرضی کے امیدوار کو چننے کا جو حق ہے، آپ کا ووٹ اُس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر آپ میری مرضی کے خلاف ووٹ ڈالیں گے، تو میرا پسندیدہ امیدوار ہار جائے گا اور آپ کی مرضی میری مرضی پر حاوی ہو جائے گی۔ آپ پوچھیں گے کہ پھر کیا ہوا۔ جسے زیادہ لوگ چاہتے ہیں اُسے جیتنا ہی چاہیے، اور جو کم مقبول ہے، اسے اپنی باری کا انتظار کرنا چاہیے۔ یہی جمہوریت ہے!

کیا آپ جمہوری انتخاب کو اتنا ہی سادہ سمجھتے ہیں۔ انتخاب نہ ہوا کھانے کا مینو ہو گیا۔ آپ کو چاول پسند ہیں اور مجھے چپاتی۔ چلیں آج چاول پکا لیتے ہیں، کل چپاتی بنا لیں گے۔ اور اگر مجھے آپ کے چاول اچھے لگے تو کل بھی چاول ہی پکا لیں گے۔ شاید زیادہ تر لوگ یہی سمجھتے ہیں۔

کوئی بھی مثال سیاسی منظر کی صحیح عکاسی تو نہیں کر سکتی، لیکن مجھے لڑکی کے حسن پر فریفتہ ہو کر شادی کی ضد کرنے والے لڑکے کی مثال زیادہ موزوں محسوس ہوتی ہے۔ لڑکا ماں سے کہتا ہے کہ مجھے یہ لڑکی اچھی لگتی ہے، اور شادی میری ہونی ہے، زندگی میں نے گزارنی ہے، تو آپ کو اس سے کیا۔ ماں باپ کہتے ہیں کہ بیٹا یہ تو دیکھ لو کہ وہ تمہیں عزت دے گی؟ تمہارے ماں باپ کا دھیان رکھے گی؟ وہ تمہارا گھر چلا سکتی ہے؟ تمہاری کمائی میں گزارا کر لے گی؟ بال بچوں کی تربیت کیسی کرے گی؟ ہمیں یہ تمام باتیں بھی تو جانچنے دو۔ لیکن لڑکا اپنی بات پر اڑا رہتا ہے اور شادی کر بیٹھتا ہے۔ بعد میں اگر ماں باپ کے اندیشے صحیح ثابت ہوں، اور خدا نخواستہ وہ شادی نبھ نہ سکے، اور دوبارہ شادی کی نوبت آ جائے، تو کوئی دانا شخص پہلے والی غلطی دہرانا نہیں چاہے گا۔ اب نہ صرف ان ساری باتوں کا دھیان رکھا جائے گا جن کا مشورہ والدین نے دیا تھا، بلک پہلی شادی میں جن مسائل کی وجہ سے مشکلات پیش آئی تھیں، اُن پر زیادہ دھیان دیا جائے گا، اور ایک بہتر ساتھی چننے کی کوشش کی جائے گی۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی۔ اگر پہلی شادی سے بچے ہو چکے تھے تو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ نئی دلہن ان کا خیال رکھ پائے گی یا نہیں۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ نئی دلہن کی یہ پہلی شادی نہ ہو۔ دیکھنا پڑے گا کہ اُس کی پہلی شادی کیوں ختم ہوئی۔ اور اگر اُسکے بھی پہلی شادی سے کوئی بچے ہوں، تو وہ نئے خاندان میں آ کر کیسے سما سکیں گے۔

نئی حکومت کا معاملہ بھی کافی حد تک دوسری شادی سے ملتا جلتا ہے۔ پچھلی حکومتوں نے اس ملک کو اُس طرح نہیں چلایا، جیسے ہم چاہتے تھے۔ اس لئے ہم اُس سے خلع لے کر نئی حکومت لانا چاہتے ہیں۔ تو ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ وہ ہمارے ملک کو کیسے چلائے گی۔ اُس کے پاس اسے چلانے کے لئے کیا منشور ہے؟ منشور کے بعد یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اُس منشور پر عمل درامد کے لئے اُسکے پاس کتنی صلاحیت ہے۔ جن منصوبوں کے خواب وہ ہمیں دکھا رہی ہے، اُن کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے۔ اس کے علاوہ پچھلی حکومتوں نے جو مسائل پیدا کیے ہیں، انہیں حل کرنے کا کیا منصوبہ ہے؟ انہوں نے ملک پر ہزاروں ارب ڈالر کا جو قرض چڑھا رکھا ہے، اُسے ادا کرنے کے لئے اُس کے پاس کیا پلان ہے؟ اور طلاق یافتہ عورت سے شادی کرنے ہی کی طرح اگر ہماری محبوب پارٹی کے پاس پہلے بھی کوئی حکومت رہی ہے تو اُس نے وہاں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کیا حکمت عملی اپنائی ہے۔ جو زیادہ سمجھدار لوگ ہیں وہ تو یہ بھی پوچھنا چاہیں گے کہ اس پارٹی کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی۔

عمران خان کو آزمانے کی بات ہم نے صرف مثال کے طور پر چھیڑی ہے ورنہ یہی تمام باتیں دوسری سیاسی پارٹیوں پر بھی اسی طرح صادق آتی ہیں۔ ہم محض آزمانے کی نیت سے اپنا ملک پانچ سال کےلئے کسی کے حوالے نہیں کر سکتے۔ اس نازک مسئلے کو کھانے کے مینو کی بجائے کم از کم اتنی اہمیت تو دینا ہی چاہیے جتنی ہم شادی طے کرتے وقت دیتے ہیں۔

ہمارا عام ووٹر اگر ہر پارٹی اور امیدوار کو انہی پیمانوں پر پرکھنا شروع کردے تو شاید کسی امیدوار یاسیاسی پارٹی کے لئے ہمیں دھوکا دینا ممکن ہی نہ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).