حضرتِ منیر نیازی کا آنا الیکشن میں


باغ بہشت میں خوب چہل پہل ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے اور وہاں کے مکین خدائے بلند و برتر کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں مگر ایک گوشے میں منظر کچھ جُدا سا ہے۔ پُراسرار خاموشی میں حضرت منیر نیازی مسند پر خاموش بیٹھے ہیں اور خلاء میں گھورے جا رہے ہیں، جامِ طہور اور خوشہ انگور ویسے کے ویسے پڑے ہیں حتیٰ کہ بی بی حور بھی دوسری جانب منہ کیے بیٹھی ہے۔ خاموشی طویل ہوئی تو حور کے اند ر کی عورت جاگ اٹھی اور اس نے منیر نیازی کی جانب مڑتے ہوئے کہا، کتنے نا شکرے ہیں آپ۔ دنیا مرتی ہے جنت میں آنے کے لئے اور آپ کی اداسی ہی ختم نہیں ہوتی۔ کیا غم ہے جو آپ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے، یہاں کیا کمی ہے؟ مجھ میں کیا کمی ہے؟ منیر صاحب نے ایک لمحہ کو اچٹتی سی نظر حور پر ڈالی اور خلاؤں میں گھورتے ہوئے گویا ہوئے، عشق خوبصورتی، دوری یا نذدیکی کا محتاج نہیں عشق تو لافانی ہے، جنت جہنم کا تعین عشق کرتا ہے اور مجھے اپنے وطن سے محبت ہے۔

حور ایک دم منیر صاحب کے قریب ہوئی اور ان کا ہاتھ پکڑ کر بولی جب سے آئے ہیں وطن وطن ہی کیے جا رہے ہیں، کیا دیا ہے اس وطن نے آپ کو؟ منیر صاحب نے حور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ وطن نے مجھے پہچان دی ہے، وہ تڑپ دی ہے کہ بہشت میں بھی مجھے وطن کی یاد ستاتی ہے۔ مگر میں یہ تمہیں کیوں بتا رہا ہوں تم تو ایک خیال ہو ایک پیکر ہو یہ تو منچلوں کا سودا ہے۔ حور نے طعنہ دینے والے انداز میں کہا تو پھر چلے جائیں واپس اگر جا سکتے ہیں تو!
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

جنت میں حور کے طعنے سُن سُن کے منیرنیازی صاحب تنگ آگئے اور خدا سے التجا کی کہ انہیں واپس ان کے وطن بھیج دیا جائے اگر کوسنے ہی سننے ہیں تو زمین کیا بُری جگہ ہے؟ ہر روح کی اپنی طبعیت ہوتی ہے اپنا مزاج ہوتا ہے، طبعیت زبردستی تو مائل نہیں ہوتی۔ اب میرا یہاں سے نکلنا ہی بنتا ہے، وطن میں کتنی روحیں پھرتی ہیں اگر میری روح بھی چلی جائے گی تو کیا فرق پڑ جائے گا۔
ہم بھی گھر سے منیر تب نکلے
بات اپنوں کی جب سہی نہ گئی

منیر صاحب ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے منظر بدلنے لگا جنت کی ٹھنڈی اور معطر فضا گرم اور کثیف ہونے لگی، آبشاروں اور نہروں کی جگہ گندے نالے اور جوہڑ دکھنے لگے، پرندوں اور تتلیوں کی جگہ بے ہنگم ٹریفک اور مکانوں نے لے لی۔ منیر صاحب کی التجا قبول ہو گئی اور ان کی روح کو ان کے وطن بھیج دیا گیا۔ اب صورتحال کچھ ایسی تھی کہ منیر صاحب تو سب کو دیکھ اور سن سکتے تھے مگر دوسرے ان کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ وطن چُناؤ کا موسم تھا ہر سو پارٹی پرچموں اور بینروں کی بہار تھی۔ منیر نے سوچا ذرا شہر میں گھوم پھر کر دیکھوں شاید کوئی دوست احباب مل جائیں پتہ تو کروں کس حال میں ہیں، پتہ نہیں کوئی زندہ بھی ہے یا سب مر گئے۔ یہ سوچ کر وہ ساتھ سے گزرتی بس پر سوار ہوگئے۔ شہر کا حلیہ بدل گیا تھا مگر شہریوں کی حالت نہیں وہی مایوسی وہی بے چارگی اور وہی غربت، وہ سب دیکھ رہے تھے اور محسوس کر رہے تھے۔
تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکی سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں

منیر صاحب نے دیکھا کہ ایک سیاسی جماعت کے دفتر کے سامنے لوگوں کو بریانی کھلائی جا رہی تھی اور مشروب پیش کیے جا رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ مفت کا کھانا کھاتے ہوئے غریبوں کی آنکھوں میں عجیب چمک تھی اور ان آنکھوں میں مستقبل کا فیصلہ صاف لکھا نظر آ رہا تھا۔ منیر صاحب کے چہرے پہ بھی اطمینان نظر آنے لگا کہ چلو کوئی تو ہے جو ان لوگوں کو پیٹ بھر کھانا کھلا رہا ہے۔
کوئی تو ہے منیر جسے فکر ہے میری
یہ جان کر عجیب سی حیرت ہوئی مجھے

اگلے چوراہے پر ایک سیاستدان عوام سے ووٹ مانگ رہا تھا اس کے لہجے اور تاثرات سے لگتا تھا کہ اسے یہ کام کوئی خاص پسند نہیں مگر کامیابی کے لئے ووٹ تو چاہیں اس لیے مجبوری ہے ہاتھ پھیلانا۔ کچھ ایسا ہی حال عوام کا تھا وہ ایک طویل عرصے بعد اس رہنما کو اپنے درمیان پا کر حیران تھے اور ان کی آنکھوں میں حیرانی عیاں تھی۔ پانچ سال پہلے وہ ان کے ووٹ سے جیت کر گیا تھا پھر آج ووٹ مانگنے آیا ہے۔
مدت کے بعد اسے دیکھ کر منیر
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا

امیدوار اپنی خدمات بتا رہا تھا تھا۔ احسانات گنوا رہا تھا اورساتھ ساتھ مخالفین پر تنقید کے نشتر بھی چلا رہا تھا۔ اپنے وعدوں میں چاند تارے توڑ لانے کا اعادہ کر رہا تھا۔ اپنی مجبوریاں بتا رہا تھا کہ اس کی حکومت کو چلنے نہیں دیا گیا، اندرونی اور بیرونی قوتوں کی وجہ سے ملک میں ترقی نہیں ہو سکی، دھرنے اور دہشتگردی نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا۔ مگر لوگوں کی آنکھیں اور دل کیا کہہ رہا تھا منیر صاحب سب پڑھ رہے تھے
کیسے کیسے لوگ ہمارے دل کو
جلانے کے لئے آ جاتے ہیں

منیر صاحب کونے میں کھڑے سب دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اب وقت بدل گیا ہے، شعور آ گیا ہے لوگ تحمل سے بات سُن رہے ہیں۔ سب اس کو سن رہے ہیں اور انہیں پتہ بھی ہے یہ جھوٹ بول رہا ہے مگر خاموش ہیں
ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچو تو
جو شخص سنتا ہے وہ بول بھی تو سکتا ہے

منیر صاحب نے خود کلامی کے انداز میں کہا کہ میرا خیال ہے یہ لوگ اپنا جواب ووٹ کے ذریعے دیں گے، ایک نوجوان دوسرے سے کہہ رہا تھا اس نے پانچ سال ہمیں نہیں پوچھا اب دیکھنا ہم اس کا کیا حال کرتے ہیں۔
وہ مجھ کو بھلا دیں گے میں انھیں بھُلا دوں گا
سب غرور ان کا میں خاک میں ملا دوں گا

منیر نیازی صاحب نوجوان کی بصیرت کی تعریف کرتے ہوئے آگے بڑھے تو دو نوجوانوں کو لہو لہان کراہتے ہوئے پایا وجہ یہ معلوم ہوئی کہ بریانی کے ڈبے کے حصول کے لئے لڑ پڑے تھے منیر صاحب نے قوم کی یہ ترجیحات دیکھیں تو ایک جھُر جھری سی لی اور آگے بڑھ گئے
غمِ خاص پر کبھی چُپ رہے
کبھی رو دیے غم عام پر

قریب ہی چائے کے کھوکھے پر ٹی وی چل رہا تھا جس پر دکھایا جا رہا تھاکہ و طن عزیز کے ایک حصے میں امن دشمنوں نے سینکڑوں معصوم لوگوں کو بر بریت کا نشانہ بنا ڈالا تھا۔ شہیدوں اور زخمیوں کے خون سے ایک ہی پکار سنائی دے رہی تھی
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
ایک حشر اس زمین پر اٹھا دینا چاہیے

منیر نیازی صاحب کف افسوس ملتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ سیاستدان اپنے مفاد کے لئے معصوم لوگوں کو مروا رہے ہیں، ماؤں کی گودیں اجاڑ رہے ہیں ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ان کے کانوں میں آواز پڑی
گمراہیوں کا شکوہ نہ کر اب تو اے منیر
تو ہی تھا سب سے بڑھ کر یہاں راہنما پرست

سارا دن شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر بھٹکنے کے باوجود منیر نیازی کو کوئی شناسا چہرہ نہ ملا پتہ نہیں وقت نے چہروں کو گدلا دیا تھا یا خود لوگوں نے ماسک پہن لیے تھے۔ شہر پھیل گیا تھا رشتے سکڑ گئے تھے اخلاق اور رواداری ناپید ہو چکی تھی نفسا نفسی کا عالم تھا جہاں زندہ انسانوں کو کوئی نہیں پوچھتا تھا وہاں ایک رُوح کی فکر کون کرتا وہ بھی ایک بے چین شاعر کی روح۔ نیازی صاحب نے مایوس ہو کر ایک بار پھر نظریں آسمان کی طرف کیں اور التجا کی کہ اے خدا میں جن مظالم اور حالات سے دلبرداشتہ ہو کر مرا تھا وہ اب تک ویسے ہی ہیں۔ بس ایک بار پھر موت چاہتا ہوں، شہر کے لوگ تب بھی ظالم تھے وہ اب بھی ظالم ہیں مگر اب مجھے مرنے کا شوق نہیں آرزو ہے۔
کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سَن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).