آج کے انتخابات اور ڈمرو کا منکہ


پی کے فلم میں جب پی کے (عامر خان) ملکی سطح پر مشہور ہو جاتا ہے اور مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے مناظرے ٹی وی چینلز پر چلنے لگتے ہیں تو وہ دیہاتی ڈاکو جو زمین پر آتے ہی اسے لوٹ لیتا ہے وہ اپنے دوستوں کو بتانے لگتا ہے کہ اس کو میں نے اس مقام پر پہنچایا ہے۔ میں اس کو نہ لوٹتا تو یہ آج اس مقام پر نہیں ہوتا۔ ہماری جمہوریت کا بھی یہی حال ہے۔ جمہوریت کے قائم ہوتے ہی کئی ڈاکو اس کو لوٹ لیتے ہیں۔ جو ووٹ کی طاقت جمہوریت کا اصل سافٹ ویئر ہونی چاہیے اس کو“ڈمڑو کے منکے“ کی طرح کئی نام دے کر ادھر سے ادھر کر دیا جاتا ہے، مختلف ہاتھوں میں اس کو بیچ دیا جاتا ہے۔ یہ ڈمرو کا منکہ کبھی کسی کی لاٹھی اور بوٹ کے نیچے ہوتا ہے، کبھی انصاف کے ترازو میں اور کبھی مسجد کے منبر میں۔ جنہوں نے اس منکے کو اپنا اصل مقام دلانے کا وعدہ کر رکھا ہوتا ہے وہ بھی اس کی خرید و فروخت کے کالے دھندھے میں شامل ہوتے ہیں۔

اچھی خبر یہ ہے کہ اب یہ کہانی چل پڑی ہے۔ جمہوریت کے سفر کو بظاہر بلا تعطل چلے ہوئے دس سال ہو چلے ہیں۔ اب تمام تر تیاریان مکمل ہیں کہ اس کو آج 25 جولائی کو مزید آگے چلانے کی بنیاد ڈالی جائے۔ کیا بیس کروڑ عوام کو اپنا ڈمڑو کا منکا واپس ملے گا یا نہیں۔ اس بات کی ضمانت آج کے انتخابات نہیں دے سکتے، لیکن اگر آج کے انتخابات میں ووثرز نے یہ جان لیا اور فیصلہ سنا دیا کہ ڈمڑو کا منکا جن قوتوں کے قبضے میں ہے یا جن قوتوں کی خواہش ہے کہ وہ اس کو اپنے قبضے میں رکھیں، ان سے ہر صورت میں واپس لیا جائے گا تو یہ امید پیدا ہو رہی ہے کہ یہ سفر کامیاب بھی ہو جائے گا۔

آج انتخابات ہیں اور پاکستان طویل ترین جمہوری دور میں داخل ہو رہا ہے۔ گذشتہ دس سال کی جمہوریت کسی بھی لحاظ سے مکمل طور پراطمینان بخش کارکردگی نہیں دکھا سکی ہے لیکن اس جمہوری دور میں جو کچھ حاصل ہوا ہے اس کے کچھ ثمرات ہمارے سامنے ہیں اور مزید ثمرات کے سامنے آنے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم اس ڈمرو کے منکے کو اس نظام کو چلانے والے سافٹ ویئر کا درجہ دلا سکتے ہیں یا اسی طرح اس کو کسی کی لاٹھی، کسی کے بوٹ، کسی کی دستار اوور کسی کی ترازو کے پاس یرغمال رکھنا چاہتے ہیں۔

آج کے انتخابات کی بہترین کامیابی یہ ہے کہ پہلی بار پاکستان میں امیدوار اور ووٹر کے درمیان احتساب کا ایسا عمل شروع ہوا ہے جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ اپنے اس عمل کے مزید مستحکم اور میچوئر ہونے کی ضرورت ہے۔ احتساب کا یہ عمل کئی جگہوں پر ذمہ دارانہ اور مہذب طور پر استعمال نہیں بھی ہوا لیکن احتساب کا عمل باقی جگہہوں پرجس طرح پامال ہو رہا ہے اس سے کئی درجہ بہتر ہے۔ جب یہ عمل جاری رہے گا تو یہی احتساب مہذب اور ذمہ دارانہ بھی ہو جائے گا۔ آج کے انتخابات کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ تمام تر تجزیہ کاروں اور مشاہدین کی جانب سے ان انتخابات کو پری پول دھاندلی کے لحاظ سے بدترین قرار دیا جانے کے باوجود کوئی بھی اس کے نتائج کے بارےمیں حتمی رائے قائم نہیں کر سکا ہے۔

آپ اندازہ کریں کہ 2023 اور 2028 میں اگر انتخابات وقت مقررہ پر ہوئے تو ہماری جمہوریت میں ووٹر اور امیدوار یا سیاسی جماعتوں کے درمیان احتساب کا عمل کتنا مستحکم ہو چکا ہوگا۔ لیکن فی الفور سب سے اہم معرکہ یہ ہے کہ آج کے انتخابات میں ہم باہر نکلیں اور یرغمال بنے ڈمرو کے منکے کو اس کا اصل مقام واپس دلائیں۔

(نیاز ندیم پیشے کے لحاظ سے پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو ثقافتی رضاکاری کے کاموں میں بھی مصروف رکھتے ہیں۔ سندھی میں شاعری کرتے ہیں اور پاکستان کے پہلے مادری زبانوں کے لٹریچر فیسٹیول کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس niaznadeem@gmail.com ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).