افغانستان کے ساتھ گہرے ہوتے رابطے معاہدے اور فائدے


اسلام آباد افغانستان کے ساتھ حالیہ مذاکرات میں شریک پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ فوجی، انٹیلیجنس افسران، سفارتکاروں اور دیگر اہم وزارتوں کے نمائیندوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ افغانستان میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ رابطے بڑھانے کے لئے فعال کردارکرنا چاہیے۔

اگرچہ یہ سمجھنے میں دیر کی گئی ہے لیکن دیر آید درست آید۔ افغانستان سے تعلقات کی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔ پاکستانی افغانی پالیسی سازوں کو یہ احساس ضرور دلانا چاہیے کہ کہ ہم نے اب تک کیا کھویا اور کیاپایا ہے؟

2013 میں دوطرفہ تجارت کو 5 ارب تک پہنچانے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن 2.6 ارب ڈالر کی تجارت کم ہوکر1.2 ارب ڈالر تک گر گئی۔ خیبر پختونخوا کے صدر، پاک افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریزکے ڈائیریکٹر ضیاءالحق سرحدی کا کہنا ہے ک گزشتہ آٹھ سالوں سے راہداری کا کاروبار ایران کی بندرگاہ چا بہار اور بندر عباس منتقل ہو چکا ہے۔

صرف اس ایک وجہ سے پاک افغان باہمی تجارت کاحجم جو کہ تقریباً 2.5 ارب ڈالر تھا مزید کم ہو گیا ہے اور 50 کروڑ ڈالر کی خطرناک سطح پر آگیا ہے۔

پاک افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نائب چیئرمین اور افغان تاجرخان جان الکوزی نے گزشتہ مہینے کابل میں دونوں ممالک کے ٹریک ٹو ڈائیلاگ کے شرکاءکو بتایا کہ افغان تاجر اب بھی کراچی اور گوادر کے بندرگاہوں سے تجارت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستانی راستوں کا کوئی متبادل نہیں۔

اگر ہم خود تجارتی رستے بند کریں گے تو دوسرے ممالک پھر اپنے لئے متبادل راستے تلاش کریں گے۔ پاکستانی اداروں کو سوچنا پڑے گا کہ ہم نے اپنی پالیسیوں سے دوسروں کو افغانستان میں کتنی ”سپیس“ دی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں گزشتہ 40 سال سے جاری جنگ سے پاکستان براہ راست متاثر ہوا ہے اورہمارے لوگوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں لیکن اج افغانستان میں بہت ہی کم لوگ پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرتے ہیں۔

ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری پالیسیوں میں کہاں کہاں کمزوریاں رہی ہیں؟ اب دونوں ممالک نے ” امن اوریکجہتی کے لئے پاکستان اور افغانستان عمل منصوبے“ کے نام سے دوطرفہ مذاکرات کے ایک نئے میکنزم کا باقاعدہ اغاز کیا ہے۔

جس کے 7 اصولوں میں دونوں ممالک کی جانب سے ان عناصرکے خلاف اقدامات اور ان کو اپنے اپنے علاقوں میں پناہ نہ دینے پر اتفاق ہوا ہے جو ریاست کے خلاف لڑتے ہیں اور مذاکرات سے انکاری ہوں۔ دوطرفہ مذاکرات کا باقاعدہ اغاز افغان دارلحکومت کابل میں 22 جولائی کوہوا جس میں پہلی مرتبہ پاکستان سے ایک بڑے29 رکنی وفد نے حصہ لیا۔

مذاکرات میں شرکت کرنے والے ایک پاکستانی عہدیدار نے ”ہم سب“ کو بتایا کہ ملک میں انتخابی ماحول کے باوجود پاکستان نے سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی سربراہی میں فوجی، انٹیلیجنس افسران، سفارتکاروں اور اہم وزارتوں کے نمایندوں نے کابل میں مذاکراتکیے اور ان دعووں کو غلط ثابت کیا کہ پاکستان میںسیکیورٹی ادارے، وزارتیں اور مختلف محکمے افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات نہیں چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں اور وزارتوں کے افسران کا مشترکہ موقف سامنے ایا ہے کہ افغانستان سے رابطے بڑھانے چاہیے۔

یہ ایک مثبت سوچ ہے کہ پڑوسی ملک کے ساتھ رابطوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ دونوں ممالک نے فوجی، انٹیلیجنس افسران، سفارتکاروں، وزارت تجارت کے نمائندوں اور مہاجرین کے واپسی کے لئے پانچ مشترگہ ورکنگ گروپس بنا لئے ہیں اورباہمی بات چیت کا ایک باقاعدہ نظام کا اغاز کرلیا گیا ہے۔

اجلاس کے فیصلے تو میڈیا سے شریک نہیں کیے گئے لیکن مذاکرات میں شریک ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک سرحدی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشنز کے دوران رابطے میں رہیں گے۔ دونوں ممالک نے کابل اور اسلام آباد میں فوجی نمائندوں کی تقرری بھی کے ہے۔

اس تقرری کی وجہ سے تاکہ مشکوک افراد کی موجودگی سے متعلق معلومات کا فوری تبادلہ ہوگا۔ معلومات میں شریک کرنے کے بعد اسلام آباد میں تعینات افغان فوجی افسر پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں سمیت اسی جگہ پر مشکوک افراد پر چھاپہ مارا جائے گا۔ ایسے ہی عمل کابل میں دہرانے پر اتفاق ہوا کہ وہاں موجود پاکستانی فوجی رابطہ افسر معلومات میں شریک ہونے کے ساتھ بعد میں افغان فورسز کے ساتھ کارروائی میں بھی شریک ہوگا۔

اس کے علاوہ تورخم اور چمن کراسنگ پواینٹس پر بھی دونوں ممالک کے رابطہ مراکز بنائے گئے ہیں جو سرحد پر مشکوک افراد کی نقل و حرکت کی نگرانی کریں گے۔ ایک افغان سفارتکار نے ”س ہم سب“ کو بتایا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا معاملہ دونوں ممالک کے انٹیلیجنس سربراہان کے حوالے کرنے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔

دونوں ممالک کے عہدیدار مذاکرات کے نئے نظام کے اب تک کے نتائج سے مطمئین ہیں لیکن اس میکنزم کو کامیاب بنانے کے لئے عملی اقدامات ہی ایک بڑی پیش رفت ہوگی کیونکہ ماضی میں وعدےکیے گئے لیکن اقدامات نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).