فوجی ڈیوٹی نہیں کرتے، احسان کرتے ہیں


الیکشن 2018 کی ووٹنگ کے اختتام پر فوجیوں کی کثیر تعداد کو دیکھا تو ان میں کافی فوجی نہایت کم عمر معلوم ہورہے تھا لیکن ان کے چہرے پہ روب و دبدبہ ایسے جھلک رہا تھا جیسے کوئی چالیس سال کے شخص کے میچور ہونے کی دلیل  چہرےپہ جھلک رہی  ہو۔ مسکراہٹ کا کوئی نام و نشان نہ تھا، کام میں سنجیدگی اتنی تھی کہ وہ لوگ آپس میں بھی گفتگو نہیں کر رہے تھے بنا ٹیک و سہارے کے بھاری بھرکم بندوق لئے ایسے چاق و چوبند کھڑے تھے جیسے وہ کوئی مینار کی مانند ہوں۔ میں ان کو دیکھ کر سوچنے لگی کہ میں اور میری عمر کے کتنے لوگ اس طرح کھڑے رہ سکتے ہیں ؟ شاید دو منٹ؟ نہیں شاید دس منٹ ؟ ممکن ہے آدھا گھنٹہ ؟ لیکن اس آدھے ایک گھنٹے بعد میری یا میری عمر کے لوگوں کی کمر میں یقیناً بل آجائے گا، بلاشبہ ہمیں کسی دیوار کا سہارا لے کر کھڑے ہونے کی ضرورت محسوس ہوگی، یقیناً ہمیں لگے گا کہ یہ بندوق وزنی ہے چلو نیچے رکھ دیتے ہیں۔ لیکن کیا یہ لوگ تھکتے نہیں ہیں ہر وقت کمر سیدھی رکھ کر کسی چٹان کی طرح کھڑے رہ کر،کیا ان کی کمر میں ہماری طرح بل یا جھکاؤ نہیں آتا ؟ پھر ان تمام سوچوں کے درمیان یہ خیال آیا کہ یہ کیوں الجھن محسوس کریں گے یہ تو ان کی ذمے داری اور جاب کا حصہ ہے اور اس ہی ٹریننگ، پریکٹس اور سروس کی انہیں تنخواہ ملتی ہے۔

جب یہ لفظ تنخواہ ذہن میں آیا تو سوچا ان کی تنخواہ کتنی ہوسکتی ہے؟ بیس ہزار؟ پچیس ہزار؟ تیس ہزار؟ پینتیس ہزار؟ خیر اتنی تنخواہ تو میری بھی ہے پھر اتنی تنخواہ کیلئے یہ کیوں اتنی سخت جاب کرنے پہ آمادہ ہیں جس میں نہ گھر کا سکون حاصل ہو نہ دوستوں کی محفل، نہ ویکینڈ پہ آؤٹنگ ہے نہ تقریبات میں شرکت، نہ دوستوں کی دعوت، یہاں تک کہ عید کی خوشیاں بھی فیملی کے ساتھ میسر نہیں تو پھر کیوں صرف تنخواہ کیلئے اتنی تکلیفیں، یہ تنخواہ تو اپنے ہی شہر کے کسی اچھے اداروں میں دس گھنٹے کی ڈیوٹی پر بھی مل سکتی ہے جس میں گھر میں رہنے کے مزے، دوستوں کے ساتھ  دعوتوں پہ جانے کی تفریح، رات دیر تک دوستوں کے ساتھ جاگ کر گپے لگانے، مووی دیکھنے اور ویکینڈ پہ دیر تک سونے کے مزے بھی ہیں تو پھر کیوں اتنی سخت ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔

اس عمر میں، جو عمر ان کے گھومنے پھرنے کی اور زندگی کو انجوائے کرنے کی ہے اس عمر میں یہ سب سویرے اٹھ کر بغیر اپنے ماں  باپ کا چہرہ دیکھے، بغیر نخرے کئے جو ناشتہ مل جائے وہی کھا کر سردی و گرمی میں ایک ہی لباس چاہے اس کو پہن کر گرمی میں الجھن ہو یا سردی میں ٹھنڈ محسوس ہو پہن کر کھلی فضاء میں ڈیوٹی سرانجام دینا پڑے جہاں نہ گرمی میں کوئی چھت ہو نہ پنکھا، سردی میں نہ کوئی شال اوڑھی جاسکے نہ ہیٹر میں بیٹھنے کی سہولت، کھانا بنانے سے لے کر کپڑے دھونے تک کے کام بھی تھکاوٹ کے باوجود خود ہی کرنے پڑیں تو ایسی جاب کی کیا ضرورت، محض ایک تنخواہ کی خاطر، نہیں ہرگز نہیں یہ  کام محض اک  تنخواہ کی خاطر نہیں ہوسکتا  یہ یقیناً صرف محبت میں ہوسکتا  ہے کیوں کہ محبت میں قربانی شرط ہے اور ملک کی محبت میں یہ  قربانی دینے کو تیار ہیں۔

تمام آسائشیں صرف اس لئے اس عمر میں ٹھکرا کر گھر سے نکلے ہیں کہ ہمارے جیسے کروڑوں لوگ اپنی آسائشوں والی زندگی گزار سکیں اپنی خواہشات کے صرف  اس لئے غلام نہیں بنے کہ ہمارے جیسے لوگوں کو دشمنوں کی غلامی نہ کرنی پڑے، اپنے گھر والوں سے اس لئے دور ہوگئے تاکہ ہمارے جیسے لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار سکیں، اپنا چین اس لئے گنوا دیا تاکہ ہم سکون و چین سے جی سکیں، اپنی کمر بغیر بل دیے سینہ تان کر اس لئے چٹان کی طرح چلتے  ہیں  تاکہ ہمیں دشمنوں کے آگے جھک کر نہ چلنا پڑے۔ جس عمر میں لوگوں کی پرسنل لائف شروع ہوجاتی ہے اور آنے والی زندگی کے سو خواب سجا رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی ان کی زندگی میں صرف ہمارے سکون اور خوشحالی کے خواب ہوتے ہیں۔

ہماری گاڑی کا اگر بریک فیل ہوچکا ہو تو ہم اس گاڑی کو ڈرائیو نہیں کرتے کہ کوئی حادثہ نہ ہوجائے اور ہم زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں لیکن یہ اس عمر میں بھی اپنی جان ہتھیلی میں لے کر گھوم رہے ہوتے ہیں کہ نہ جانے کب ملک کے دفاع کیلئے قربان کرنی پڑجائے ان تمام باتوں کو سمجھنے کے بعد مجھے یہ بات بخوبی سمجھ میں آگئی کہ یہ فوجی کوئی ڈیوٹی نہیں کر رہے بلکہ ہم پہ احسانات کررہے ہیں، ایسے احسان جس کی  قیمت کبھی زندگی بھر نہیں چکائی جاسکتی، ہمیں کوئی لاکھوں روپے دے کر بھی خطرناک کام کرنے کا کہے تو ہم صاف انکار کردیں گے کہ پیچھے ماں، باپ، بیوی، بچے ہیں وہ کہاں جائیں گے اگر مجھے کچھ ہوگیا تو۔
موت کے خوف سے ہم سڑک بھی ادھر ادھر دیکھ کے پار کرتے ہیں لیکن یہ فرشتہ صفت لوگ ہمارے لئے اپنی جان کی بازی لگا کر سر پر کفن باندھ کر ہر وقت موت کیلئے تیار رہتے ہیں ۔
اور ان تمام احسانات کے بدلے ہم انہیں کچھ دے نہیں سکتے تو کم از کم کوئی الزام بھی نہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).