میں اپنی ٹائم مشین کو کس تاریخ پر ایڈجسٹ کروں؟


 2018 کے الیکشن کے نتائج آتے دیکھ کر فیصلہ کیا کہ اپنی خفیہ ایجاد کو اسٹور روم سے نکالنا ہی پڑے گا۔ کپتان خان جیسا ہونق اور بے تکا لیڈر نہیں چاہئے۔ ایک ورلڈ کپ کیا جیت لیا، سر پر ہی چڑھ گیا ہے۔ بے داڑھی کا مولوی، توہم پرست اور موٹی عقل والا۔ اس نے رہی سہی کسر بھی نکال دینی ہے۔

ٹائم مشین میں ڈائل گھما کر ڈیٹ سیٹ کی۔ 25 مارچ 1992۔ مقام میلبورن کرکٹ سٹیڈیم، ایمپائر کا کمرہ۔ مشین گھرگھرائی۔ مجھے چکر سا آیا اور روشنی کی چکا چوند کے بعد ایک جھٹکا لگا۔ سکرین پر لکھا تھا کہ منزل، مقام اور وقت مقصود پر پہنچ چکے ہیں۔ امپائر کے کمرے میں قدم رکھا۔ جیب میں سے موٹا مارکر نکالا اور دیوار پر اپنا پیغام لکھ کر واپس ہو لیا۔

2018  واپس آیا تو معلوم ہوا کہ اس سال الیکشن ہوئے ہی نہیں۔ عمران خان برطانیہ میں مقیم ہیں اور کرکٹ کمنڑی کرتے ہیں ۔ شوکت خانم ہسپتال بھی انہیں نے کھینچ تان کر بنا ہی لیا تھا اور اس کی وجہ سے خوب نیک نامی کمائی۔ سیاسی پارٹی بنائی تھی مگر کام نہیں بنا۔ ورلڈ کپ کا فائنل ہارنے کے بعد کوئی ایسا کام نہیں کیا جو جوانوں کو آپ کی طرف مائل کرتا۔ ان کے بعد قومی ٹیم کی کارکردگی بھی ٹھس تھی۔ ورلڈ کپ کے اس فائنل کے بعد لگتا تھا کہ وسیم اکرم ریورس سوئنگ کرنا بھول گئے ہیں۔

2018 میں نوازشریف کی حکومت ہے۔ جرنیلوں سے اچھی مصلحت سے پیش آتے ہیں۔ ان سے قبل زرداری صاحب بھی جی ایچ کیو کے قدردان رہے۔ چھوٹی موٹی کرپشن کا شور اٹھتا رہتا ہے۔ انڈیا سے گرما گرمی بھی قائم ہے۔

بجلی نہیں ہے، ماحولیاتی آلودگی عروج پر ہے۔ سڑکیں خستہ حال ہیں اور غربت بھی ویسے ہی سڑکوں پر گشت کر رہی ہے۔ جرنیلوں کا شکنجہ مضبوط ہے۔ قوم کا حال پتلا ہے۔ بلاسفیمی کے نام پر اقلیتوں پر ظلم بھی جاری ہیں۔ پیروں، پیرزادوں کا تسلط ویسے کا ویسا ہی ہے۔ ریالوں پر پلے ہوئے ویسے ہی ہٹے کٹے فتوے فروش ہیں۔

ٹائم مشین میں پھر آ بیٹھا ہوں ۔ برائن آلڈرج اور سٹیو بکنر کے نام لکھا پیغام مٹاوں گا۔ ریورس سوئینگ اچھی چیز ہے۔ قائم رہنی چاہیے۔

ہاں، ذرا کوئی بتائے کہ کونسی تاریخ تھی جب بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء کو پروموٹ کرنے کا فیصلہ کیا؟

(وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یکم مارچ 1976 کو لیفٹنٹ جنرل محمد ضیاالحق کو پاکستان آرمی کا فور سٹار سربراہ مقرر کیا تھا: مدیر )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).