تبدیلی ابھی نہیں آئے گی


یہ اخذ کیا ہم نے جب الیکشن کے روز ملنے جلنے والے سب سمجھدار ،باشعور،اعلی تعلیم یافتہ،ہر خبر پر نظر رکھنے والے،ہر بحث میں حصہ لینے والے ،ہر نئی کتاب پڑھنے والے،بڑے بڑے ناموں اور کتابوں کے حوالے دینے والے سب احباب سے انکے ووٹ کی داستان سننا چاہی کہ ہم تو ٹھہرے پردیسی ہمارا حق تو ہمیں پچھلے پانچ سال میں بھی نہ مل سکا مگر وہ جو پڑھا لکھا ملک کا باشعور طبقہ پاکستان میں ہے وہ ہماری تقدیر کا کیا فیصلہ کرنے والا ہے اس سے بڑی بھرپور دلچسپی رہی ہمیں۔مگر مایوسی تب پھیلنے لگی جب ایک کے بعد ایک سب ڈاکٹر ،انجینئر،لیکچرر،پروفیسرز ،اعلی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء اور فوج کے اعلی افسران سے سننے میں ملا کی وہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر ووٹ کاسٹ نہ کر سکے۔کیوں؟کچھ لوگ کراچی سے تعلق رکھتے ہیں مگر روزگار،تعلیم ،بزنس کے سلسلے میں لاہور،یا اسلام آباد میں ہیں،کچھ لاہور والے کراچی میں،ملک کے چند بڑے شہروں کی اعلی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کے لئے،ڈاکٹر انجینئر بننے کے لئے آیا ہوا ملک بھر کا جوان اپنی جنم بھومیوں اور اپنے ووٹ کے حق سے دور،بڑی سرکاری اور غیر سرکاری نوکریوں کے لئے اپنے آبائ علاقوں سے دور نوکری کرنے والا طبقہ،ووٹ سے پرے۔۔۔۔کیوں چھوٹے شہروں سے چوہدری اور جاگیر داری سسٹم اتر کر نہیں دیتا،کیوں انکی تقدیر کا سورج کبھی نہیں نکلتا؟کیونکہ کیپیٹل شہروں سے دور رہنے والے اعلی تعلیم اور نوکریوں کے لئے بڑے شہروں کی طرف ہجرت پر مجبور،اور انکے آبائ حلقوں میں انکے ووٹ کی جگہ خالی،،،لوگ پڑھتے اور قابل ہوتے ہیں اور نوکریوں ،اچھے مواقع کی تلاش میں اپنے شہروں اور گھروں کو چھوڑنے کے ساتھ اپنے ووٹ کے حق کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور پھر کبھی کبھار سال میں عید بقر عید لوٹتے ہیں اور کہتے ہیں اس شہر کی تقدیر کب بدلے گی؟ کیسے بدلے گی تقدیر ،جن کو یہ بدلنی تھی وہ فیصلہ سازی سے ہی دور ہوئے۔ہر فرد اس قابل نہیں کہ ملازمت،بزنس یا تعلیم سے چھٹی لے اور بھاگے اپنے آبائ علاقے کی طرف اس ووٹ کی خاطر جس کے بل بوتے پر قسمت بدلنے کا اسکو یقین تک نہیں۔

صرف یہی نہیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی فوجی چھاؤنیاں،بیرکوں میں محازوں پر بیٹھے ہزاروں لاکھوں فوجی،جوانوں سے لیکر افسران تک،اپنی پوسٹنگز پر جہاں ان کے ووٹ کاسٹ کرنے کا کوئ انتظام نہیں۔یہ ہزاروں کی فوج اگر صرف اپنا ووٹ ہی کاسٹ کر سکے تو انکو دھونس ،ذبردستی کی بدنامی گلے ڈالنے کی ضرورت ہی نہ پڑے مگر یہاں پر وردی اور بوٹ بھی بے اثر اور دامن کی وہی کم مآئیگی!ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں پولنگ پر متعین عملہ سکولوں اور کالجز سے اکٹھے کئے گئے استاد گھروں سے دور اپنے ووٹ کے حق سے محروم۔۔ڈھیروں ڈھیر ٹی وی چینلز اور اخبارات پر دن رات لگاتار کی الیکشن نشریات میں تجزیے دینے والا ذرخیز باشعور دماغ،کام کرنے والا ہنر مند طبقہ،تجزیہ دیتا رہ گیا مگر اپنے ووٹ ڈالنے اپنے آبائ محلے نہ پہنچ سکا۔ پردیس میں بیٹھے لاکھوں اورسیز پاکستان کی تقدیر میں حصہ نہ ڈال سکنے پر مجبور۔۔۔آپ کمپیوٹر رائزڈ نظام سے اپنے دور دراز کے گاؤں میں پیسے،تحائف،اپنی تصاویر ،لائیو وڈیو تک بھجوا سکتے ہیں مگر اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتے۔کہ صبح شام ہر اخبار اور چینل کی سکرین پر لائیو پولز چلانے والے ملک میں آج بھی صرف ایک ووٹ کی خاطر آپ کو اپنا شناختی کارڈ ہاتھ میں لئے جہاز،ٹرین،یا بس پکڑ کے اپنے آبائ محلے لوٹنا پڑتا ہے جہاں پر بعض اوقات آپکی رہائش کے لئے کوئ میزبان تک نہیں ہوتا۔اور ووٹ کو اپنی ہجرتوں کے ساتھ ساتھ بدلوا دینے کا دفتری عمل اتنا پیچیدہ اور غیر مقبول کہ اکثریت اس سے باخبر تک نہیں۔کیا یہ قوم کے ساتھ مذاق نہیں کہ دھڑا دھڑ لیب ٹاپ بانٹتی قوم کے ہاتھ میں اک زرا سا ڈیجیٹل ووٹنگ کا نظام تک نہیں؟ اور اس سسٹم کو متعارف کروانے میں کوئ انقلابی سیاست دان سر گرم ،کوئ نئی پرانی جماعت نہ کوئ وردی والے ہاتھ! کیا یہ جانے انجانے میں ہو رہا ہے یا جان بوجھ کر پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے؟ اتنے بڑے پاکستان میں آبائ علاقوں میں رہ جاتی ہے صرف انتہائ غریب عوام جو مہنگی تعلیم افورڈ نہیں کر سکتی اور اپنی زندگیوں کو بدلنے پر اکثر قادر نہیں ہوتی،یا وہ بزنس مین جو چھوٹے شہروں میں مارکیٹ رکھتے ہیں مگر اکثر اعلی تعلیم نہیں۔اور لاہور کراچی اسلام آباد،پشاور کوئیٹہ جن پڑھے لکھے اعلی عہدوں پر فائز ،اعلہ رتبہ رکھنے والے ایسے لاکھوں لوگ سے بھرا ہوا ہے ،جو چھوٹے شہروں سے ہجرت کر کے آئے ہیں، مگر اس شہر کی یا اپنے آبائ شہر کی تقدیر بدلنے سے قاصر ہیں۔

کیوں دن رات فوج کے کردار،سیاست دانوں کی کرپشن پر بولنے والے دانشمند حضرات قوم کے اس حق کی خاطر آواز نہیں اٹھاتے۔عوام کو سامنے کے پتلی تماشے میں الجھا کر اندر کھاتے ان کو ان کے بنیادی حق سے اس طرح محروم رکھا جا رہا ہے کہ انکو خبر تک نہیں۔عمران خان صاحب کیا آپ کو علم نہیں کہ جس عوام سے آپ مخاطب ہوتے ہیں، جنکو آپ قائل کرتے ہیں انکی اکثریت کسی نہ کسی وجہ سے بیلٹ باکس تک پہنچ ہی نہ سکے گی؟ڈییر وردی والے صاحبان کیا آپ کو خبر نہیں کہ ڈنڈے کے زور سے ہوا بدلنے سے بہتر تھا کہ آپ ذیادہ سے ذیادہ باشعور طبقے تک ووٹ کا حق پہنچا دینے پر کچھ محنت کرتے؟عزت مآب عدلیہ کیا اس بات سے انجان ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی خاطر بڑے شہروں میں بیٹھے ہزاروں وکلا اپنے آبائ علاقوں میں ووٹ کاسٹ نہ کر سکیں گے؟لاہور کراچی سے چنے جانے والے یہ سب اداروں کے حکمران کیا پورے پاکستان کے کروڑوں عام انسانوں کے مسائل تک پہنچنے کی اور انکو حل کرنے کی ہمت ،طاقت اور نیت رکھتے ہیں؟شاید نہیں!اور اگر رکھتے ہیں تو یہ کام کسی نے نہیں کیا!کسی نے بھی پڑھتی لکھی تعلیم یافتہ عوام کی اکثریت تک اس طاقت کو پہنچانے کی کوشش نہیں کی،تو پھر فیصلہ محض بریانی کی پلیٹ پر ہی ہو گا اور تب تک ہوتا رہے گا جب تک ہر ہاتھ میں اس طرح ووٹ کا حق نہیں آ جاتا جسطرح سمارٹ فون اور دنیا سمٹ کر آ چکی ہے۔پاکستان کے الیکشن میں دھاندلی ہوتی رہے گی جب تک پاکستان کا یہ سب سے ذیادہ جاندار،تعلیم یافتہ اور کارآمد طبقہ اداروں،بیرکوں،یونیورسٹیوں،ہسپتالوں اور غیر ممالک میں بیٹھا اپنا ووٹ اس فیصلے میں شریک نہ کر سکے۔سب تبدیلی کے شوقین تب تک اپوزیشن میں بیٹھیں جب تک کہ وہ اس پولنگ کے نظام کو کھینچ کر انیسویں صدی میں نہ لے آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).