نیا منظر نامہ، نواز شریف کی جان کو خطرہ


ملک میں تازہ الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت ایک کمزور حکومت ہو گی ملک دن بدن عدم استحکام کی طرف جائے گا ملک کا معاشی سٹرکچر تباہ ہو چکا ۔حکومت کو فوری طور پر بیل آؤٹ پیکج کے لئے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ امریکہ نے ہمیشہ ملکوں کو قابو کرنے کے لئے ملکوں کو سیاسی عدم استحکام کی طرف دھکیلا ہے جس سے ہمیشہ ملکوں میں معاشی عدم استحکام پیدا ہوا۔ ملک قرضوں کی قسط تک ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ معاشی عدم استحکام کے نتیجے میں آئی ایم۔ایف کے پاس جانا مجبوری بن جاتا ہے۔

جب وہ ملک آئی ایم۔ایف کے پاس جاتا ہے اسے کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے امریکہ سے ڈیل کرے۔ وہاں ڈیل کا مطلب ہوتا ہے مزید شنکجہ۔

اسٹیبلشمنٹ تو ون ون پوزیشن میں ہے اگر ن لیگ الیکشن کو مسترد کر دیتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے وارے نیارے ہیں کہ کئیر ٹیکر حکومت ہی آگے چلے گی یہی پلان اے تھا کہ کئیر ٹیکرز کو تین سال دینا ہے یا پھر اس ٹائیٹل کو ٹیکنوکریٹس کی حکومت سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

وہ ہمیشہ سے حکومت کرتے آئے ہیں کرتے رہیں گے۔ انہیں پتا ہے کہ ایجیٹیشن ن لیگ نہیں کرے گی نہ ہی کر سکتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ ملک کو داؤ پر لگایا ہے ۔ لوگ پاکستان کو عدم استحکام کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔

یہ بہتر ہے کہ یہ حکومت عمران خان بنائے۔

عمران خان کو جلد ہی فارغ کر دیا جائے گا جب کہ اصل گھوڑا شاہ محمود قریشی ہے۔ انہیں دوسو سال کا تجربہ ہے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کرنے کا۔

اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ ایک کلرک چاہئے ہوتا ہے ایک مضبوط وزیراعظم وہ ایفورڈ ہی نہیں کر سکتے۔

نواز شریف 68 سال کا ہے ایک دفعہ اوپن ہارٹ سرجری ہو چکی ہے۔

اس کی جان کو خطرہ ہے لیکن لگتا ہے وہ اب زندگی اور موت سے بھی ماورا ہو چکا ہے۔

زلت کی زندگی سے وقار سے مرنا قبول کر لے گا۔

وہ تمام سرد گرم دیکھ چکا۔وہ اب تاریخ میں زندہ رہنا چاہتا یے اور یہی چیز اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں ۔ وہ اسے جیل میں مار سکتے ہیں کہ جیل میں پڑا نواز شریف دن بدن بھوت بنتا جائے گا جو اسٹیبلشمنٹ کو ڈراتا رہے گا تو بہتر حل یہی ہو گا کہ اس سے جان چھڑا لی جائے۔

شہباز شریف اپنے بیانیے سے مار کھا گیا ہے وہ لیڈر نہیں بن پایا۔ شہباز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے لئے اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کی کوشش کی اسے یقین تھا کہ وہ آسانی سے سادہ اکثریت حاصل کر لے گا مگر اسٹیبلشمنٹ کو یہ سب قبول نہیں تھا۔ وہ معاملات پر مکمل کنٹرول چاہتی ہے۔ ن لیگ کوئی بھی احتجاجی تحریک چلا نہیں سکتی کہ یہ اس کا مزاج ہی نہیں ہے اور نہ ہی ان کی ایسی تربیت ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن اور دوسری دیگر جماعتیں الیکشن نتائج کو مسترد کر چکی ہیں۔ نتائج کو تسلیم نہ کرنے کے نتیجے کے طور پر ملک عدم استحکام کی طرف بڑھنا شروع ہو جائے گا اور یہی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہے کہ اس طرح سی پیک کو وائنڈ آپ کیا جا سکے گا۔ سی پیک امریکہ کے مفادات کے خلاف ہے۔ نواز شریف کا موجود رہنا امریکہ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے ۔ ن لیگ کے اقتدار میں آنے کی صورت خطے پر چینی اثر رسوخ بڑھ جاتا جو امریکہ کو قبول نہیں۔دن بدن حالات برے ہی ہونے ہیں یہ امریکہ کی ضرورت ہے۔ اللہ ہم پر رحم کرے۔ انہوں نے یہ کوشش کی ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی بھی مل کر حکومت نہ بنا سکیں۔ نتائج لیٹ کرنے کی وجہ یہ بھی یہ ہو سکتی ہے کہ اس دوران نواز شریف سے بارگینگ کی مسلسل کوشش کی جاتی رہی ہو ۔پہلے ہی فلر کے طور پر یہ خبر چلوا دی گئی تھی کہ نواز شریف کہہ رہا ہے کہ مجھے جیل سے نکالو ہم لوگ لندن چلے جائیں گے۔ان کے مفادات کا تقاضہ ہے کہ نواز شریف کو جیل سے نکلوا کر لندن بجھوادیا جائے۔

عین ممکن ہے کہ عمران خان وزیراعظم نہ بنے یا اسے وزیراعظم نہ بنایا جائے کہ اپوزیشن ان نتائج کو تسلیم کرنے سے عاری ہے ان کی کل کی آل پارٹیز کانفرنس سے نئے حالات واضح ہو ں گے ۔ایسے مشکل حالات میں اگر اپوزیشن پارلیمنٹ میں نہیں آٹی تو عمران خان کے لئے وزیر اعظم بننا خواب و خیال ہو جائے گا اگر چہ وہ وکٹری سپیچ کر چکا لیکن دیکھنا تو یہ ہے کہ کیا وہ سکون سے حکومت کر پائے گا ؟اس کے لئےحکومت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہو گا ایسے حالات میں حکومت کرنے کا مطلب ہے کہ اپنی سیاسی ساکھ کو داؤ پر لگانا۔وہ بڑے بڑے وعدے جو عمران خان نے کئے ہیں وہ پورے کرنا نا ممکن ہیں وہ محض الیکشن سٹریٹیجی ثابت ہوں گے۔ اصل حکومت خلائی مخلوق ہی کرے گی جو پردے کے پیچھے رہ کر اپنے پیادے آگے بڑھا رہی ہے اس کو اب اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ عمران خان کی ساکھ کیا ہو گی۔ کسی کو شاہ مات دینے کے لئے کبھی کبھی اپنے گھوڑے بھی مروانا پڑتے ہیں اور عمران خان ایسا ہی ایک گھوڑا ہے جسے داؤ پر لگایا جا سکتا ہے۔ عمران خان کا امتحان اب شروع ہوا ہے۔ وہ کتنی سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتا ہے اس کا اندازہ اس کی پارلیمنٹ میں اس کی پہلی تقریر سے ہو گا جس میں وہ اپنا پالیسی بیان دے گا۔ کل تک تو وہ تعن و تشنہ کے ڈونگرے برساتا رہا اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ اس کا رویہ کیا ہو گا۔کیا وہ وزیر اعظم ہاؤس میں بے بسی کی تصؤیر بنا بیٹھا رہے گااور اسٹیبلیشمنٹ اپنا گل کھلاتی رہے گی یا وہ کوئی مضبوط سٹینڈ بھی لے گا؟

ہینڈ پکڈکمزور ترین وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی سے عمر ان خان کس طرح مختلف ہو گا؟

ثاقب نثار نے جس طرح دفعہ 3/284 کو اپنے لئے بے تحاشہ پھیلا لیا ہے اس کی بڑھتی ہوئی حدود پر کیسے بند باندھا جائے گا؟

بجٹ پہلے ہی منظور ہو چکاوہ اپنی معاشی پالیسیوں کا اطلاق کیسے کرے گا؟

گروانڈ سے باہر رہ کر بڑے دعوے کئے جا سکتے ہیں لیکن پچ پر آ کر پرفارم کرنا پڑتا ہے اب عوام کے لئے کوئی عذر قابل قبول نہیں ہو گا۔ اب عمران خان کی سیاسی بصیرت کا امتحان شروع ہوا چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).