عمران خان حلقے کھلوا ہی دیں… کہیں دیر نہ ہو جائے


آج عام انتخابات کے ایک دن بعد جب کہ ابھی نتائج آرہے ہیں ابھی جب میں یہ میں مضمون لکھ رہا ہوں تو قومی اسمبلی کی دو سو بہتر سیٹوں جن پر پولنگ ہوئی ان میں سے دو سو انہتر نشستوں کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج آچکے تھے جس میں سے پاکستان تحریک انصاف اب تک کے نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی ایک سو اٹھارہ نشستیں حاصل کر چکی تھی اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ عمران خان ملک اگلے وزیر اعظم ہونگے. انتخابات میں اپنی فتح کا یقین ہونے کے بعد عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوے اعلان کیا کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے یا پھر کسی بھی حلقے میں اگر دھاندلی ہوئی تو میں ساری سیاسی جماعتوں کے ساتھ کھڑا ہوں گا، ہم آپکی پوری مدد کریں گے.
میری نظر میں یہ بہت اہم اور بر وقت اعلان ہے اور عمران خان کو حلقے کھلوانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خط لکھیں کہ جن حلقوں کے نتائج پر سیاسی جماعتوں کے اعتراضات ہیں وہ ان کے اقتدار سمبھالنے سے پہلے کھول دیے جائیں اور انکی تحقیقات کی جائے کہ کیا دھاندلی ہوئی یا نہیں اور اگر دھا ندلی کے ثبوت ملیں تو ان حلقوں میں دوبارہ انتخابات کرا کر اس بات کا خان صاحب کو ثبوت فراہم کرنا چاہیے کہ وہ جو کہتے ہیں کر دکھاتے ہیں. ان پر جو بار بار یو ٹرن لینے کا الزام لگتا ہے وہ انکے اس اقدام سے کسی حد تک دھل سکتا ہے۔
اب تک تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوںنے پچیس جولائی کو پولنگ کے دوران ہی کہنا شروع کر دیا تھا کہ تحریک انصاف کو جتوانے کے لئے کھل کر دھاندلی کی جا رہی ہے، بلکہ مسلم لیگ نواز کے شہباز شریف نے تو شام کو ہی پریس کانفرنس کر کے دھاندلی کے الزامات لگا دیے تھے
اسی طرح متحدہ مجلس عمل، ایم کیو ایم، پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، پی ایس پی، او ر تو اور بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی دھاندلی کی شکایات کر دی. یہ پارٹی جس نے سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں غیبی مدد سے کامیابیاں حاصل کیں اور پی ٹی آیی اور پیپلز پارٹی کی امداد سے سینیٹ کا چیرمین بھی منتخب کروا لیا۔
سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں ایسے کلپس اور تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں جن میں وردی والے اہلکار ووٹوں کے تھیلے اٹھا کر لے جا رہے ہیں یا وہ ووٹوں کی گنتی بھی کرتے نظر آرہے ہیں، ان تصاویر کی اصلیت یا اصل صورتحال کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا. یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تصاویر نیی ہیں یا پرانی، پر انکی تحقیقات ضرور ہونی چاہے.
انتخابی نتائج پر پر شکوک شبہات اس وقت مزید بڑھ گئے جب نتائج کی ترسیل کی موبائل فون اپلیکیشن کے بارے میں سیکریٹری الیکشن کمیشن نے رات دو بجے کے بعد اعلان کیا کہ اس نظام  نے کام کرنا چھوڑ دیا اور اب پرانے طریقہ کار کے ذریعے پولنگ سٹیشن سے ریٹرننگ افسر کے دفاترنتائج کی ترسیل کی جایے گی۔ پھر یہ بھی شکایات عام سنی گیی کہ نتائج کا فارم پینتالیس دستیاب نہیں۔
اسکے علاوہ تمام اہم حلقوں کے نتائج خاص کر سینٹرل پنجاب کے اہم حلقوں کے نتائج میں بہت زیادہ تاخیر ہوئی، بلاول بھٹو زرداری کی لیاری کی نشست جس پر انہیں شکست کا سامنہ کرنا پڑا اور لاڑکانہ جہاں سے وہ جیت گیے ہیں انکے نتائج چوبیس گھنٹوں سے بھی زائد وقت کے بعد جاری کے گئے. میڈیا کو بھی پولنگ اسٹیشنز کا دورہ کرنے سے روکنے کی شکایات موجود ہیں۔
ان سب معاملات نے صورتحال کو انتہائی گمبھیر کر دیا ہے اور صورتحال کا تقاضا ہے کہ ان شکایات کی فوری تحقیقات کی جایے کہ نظام کہ نظام کے فیل ہو جانے کا اصل ذمہ دار کون ہے اور جب اس نظام کی اچھی طرح ٹیسٹنگ نہیں کی گئی تھی تو اس کو استعمال کیوں کیا گیا جو انتخابی نتائج پر ایک سیاہ دھبہ ہے اور رہے گا. ہوسکتا کہ غیر ملکی مبصر جو انتخابی عمل کی کا جائزہ لینے آئے ہویے ہیں وہ اس کا بہانا بنا کر پورے انتخابی عمل پر بہت سنجیدہ سوالات اٹھائیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کر دیا جائے ۔
اب تک یورپی یونین کی ٹیم نے پولنگ کے عمل کو اطمینان بخش قرار دیا ہے، پر عام انتخابات پر اپنی حتمی رپورٹ وہ جمعہ کے روز جاری کریں گے.

اگر دیکھا جائے کہ جن امیدواروں کے بارے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ انکو خلائی مخلوق کی سپورٹ حاصل ہے یا وہ انکے کہنے پر تحریک انصاف میں شامل ہوے تھے انھیں شکست کا کر نا پڑا ہے، ان میں سر فہرست چودھری نثار ہیں اور انہیں جیپ کا انتخابی نشان دیا گیا تھا وہ قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں سے ہار گئے. اسکے علاوہ ضعیم قادری، ندیم افضل چن، نذر گوندل، فردوس عاشق اعوان، مرتضیٰ ستی، شوکت بصرہ، صمصام بخاری جیسے الیکٹیبلز کو عوام نے فارغ کر دیا.
اسی طرح سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف گرینڈ ڈیموکریٹک الاینس صرف تین نشستیں حاصل کر سکی اور بلوچستان عوامی پارٹی صرف ایک جگہ جیت سکی. جبکہ اسٹیبلشمنٹ جن کے خلاف تھی یا ہوسکتی تھی جیسے خواجہ آصف، احسن اقبال، خرم دستگیر خان جیسے نون لیگ والے جیت گئے.
خیر خان صاحب اگر اپنی ممکنہ حکومت کو شروع میں ہی استحکام دینا چاہتے ہیں تو دیر نہ کریں اور الیکشن کمیشن کو دھاندلی کی تحقیقات کے لیے خط لکھ ہی ڈالیں تاکہ انکے خلاف اٹھتا ہوا شور اپنی موت آپ مر جائے ورنہ ان کو بھی دھرنوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جسکی روایت خود انہوں نے ڈالی .


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).