2018 کی انتخابی مشق سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوئی


کیا اپنے تئیں مقبول سیاست دانوں کو اس عام انتخابات میں یہ سبق مزید پختہ نہیں کروایا گیا کہ الیکشن ترقیاتی منصوبوں, پیٹرول کی قیمتیں کنٹرول کر کے نہیں جیتا جا سکتا بلکہ ان قوتوں کو خوش کرنا اولین فریضہ ہے جو اقتدار میں حصے دار ہیں. وہ طاقت ور حلیف آپ کے لیے سب اداروں بشمول میڈیا کو بھی کنٹرول کرتے ہیں.

اگر چہ میں یہ بات لکھ چکا کہ پاکستان میں الیکشن ایسے ہی ہوتے ہیں اور مستقبل قریب میں کوئی بڑی تبدیلی واقع ہوتے نہیں دکھائی دیتی. لیکن ذہنی مشق کے لیے بات چیت میں کیا حرج ہے. عوام کے پاس نظام کی تبدیلی کے دو ہی راستے ہوتے ہیں. ایک ووٹ کی پرچی, اس پرچی کی طاقت سے اپنا پسندیدہ حکمران چن لیتے ہیں. تبدیلی کا دوسرا راستہ ہتھیار اٹھا لینا ہے, کہ تنگ آمد بجنگ آمد!

حکمران اشرافیہ کی طرف سے یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ عوام کو اس حد تک تنگ نہیں کیا جاے کہ وہ جنگ پہ آمادہ ہوں, ایسا نہ ہونے دینا سسٹم کی ضرورت ہے. جب عوام بہت ہی بیزار آ جائیں تو حزب مخالف کو آگے کر کے حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے. عوام نئے انتخابات میں اپنا کتھارسس کر لیتے ہیں اور امید باندھ کے بیٹھ جاتے ہیں کہ اب کچھ بہتر ہوگا.

پھر یہ بھی سچ ہے کہ ہتھیار کے راستے تبدیلی میں نری تباہی ہے. بچ جانے والی نسلیں برسوں انقلاب کا خراج دیتی ہیں. انقلاب بھی ہاے جیک ہو جاتے ہیں جسے رد انقلاب کا نام دیا جاتا ہے.

پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں درپردہ قوتیں سیاست دانوں کو فرنٹ پہ رکھتی ہیں اور اہتمام یہ کیا جاتا ہے کہ کوئی نیک نام نہ ہو. ہر ایک کے دامن پر کئی کئی داغ ہوں, تا کہ انھیں جب متنازع بنا کے تخت سے اتارنا ہو, عوام کی کثیر تعداد خوشیاں مناے. جب عوام ہر لیڈر سے مایوس ہو جائیں تو فوج براہ راست اقتدار سنبھال لیتی ہے. دیکھ لیجئے ہمارے یہاں مٹھائیاں تقسیم کرنے کی کتنی مثالیں ملتی ہیں.

اب صورت کیا ہے, حل کیا. ایسا سسٹم جس میں مالی طور پہ مضبوط امیدوار ہی حکمرانی کا امیدوار بن سکتا ہو, وہاں عوام ایسوں کو کیسے منتخب کرے, جو ان کا درد لیے ہو. ایسے کو منتخب کر بھی لے تو ان کے ووٹ کی پرچی کا تحفظ کیوں کر ہو. انتخاب چرا لیے جاتے ہیں. یہ نہیں کہ عوام جانتے نہیں کون انتخاب چرانے کی اہلیت رکھتا ہے. اپنے دل پر ہاتھ رکھ کے پوچھیے تو دھڑکنیں جواب دیں گی یہاں کون سا ادارہ ہے جو انتخاب چرانے کی اہلیت رکھتا ہے, کون ہے جو ان داغ دار چہروں کو ہم پہ مسلط کرنے میں پیش پیش ہے. مسئلہ یہ سیاست دان نہیں, مسئلہ یہ ہے کہ انتخاب چرانے والے کو عوام خدا کا اوتار بناے بیٹھے ہیں.

ہم افواہوں پہ کان دھرتے ہیں. تہمتوں بہتانوں کو الزام بناے لیے دوڑتے ہیں. ہم بیک وقت ایک امیدوار سے محبت کرتے ہیں مخالف امیدوار سے نفرت اپنا فریضہ جانتے ہیں. ہمیں دونوں سے محبت نہ سہی مخالف سے نفرت نہ ہو, تو کیا مضائقہ ہے. یہ اشرافیہ کرسی کے لیے تو ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہیں, ورنہ یہ ایک دوسرے کے مفادات کے آمین ہیں.

عوام کے ہتھیار اٹھانے کا وقت ابھی آیا نہیں; ووٹ کی پرچی ہی پہ بھروسا کیجئے. آئین کے تحت قانون کے مطابق قائم حکومت پر چاہے جتنی تنقید کریں, لیکن عہد کر لیں کہ جو آئین کو توڑ کے ہم پر حکمران ہوگا, وہ خدا کی طرف سے بھیجا ہوا بھی ہوگا تو ہم اس کی حمایت نہیں کریں گے. ایسی کوئی صورت ہوگی کہ ما تحت ادارے حکم ماننے کے بجاے حکم دینے لگیں تو ہم کھل کے ان کی مخالفت کریں. سیاست دانوں کو عوامی حمایت حاصل ہو تو ہی وہ ڈٹ سکتا ہے.

فرض کیجئے امریکا, ہندستان, افغانستان کی افواج پاکستان کی ریاستی عمارتوں پر قبضہ کر لیں اور عوام کی منتخب حکومتوں کو بر طرف کر دیں تو آپ کا جھکاو کس کی طرف ہونا چاہیے. ظاہر ہے آئین کے مطابق قائم حکومت کی طرف, چاہے آپ نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا.

جو قوتیں آئین توڑتی قابض ہوئیں; ان سے نفرت کا اظہار کریں. چاہے وہ بیرونی قوتیں اور یا اپنے ملک کے ادارے. اپنے ادارے تبھی اپنے ہوتے ہیں جب اپنے آئین کی نفی نہ کریں. وہ آئین جس کے تحت ریاست کا تمام بندوبست ہے. اگر ملک اور عوام کی بہ تری کے لیے کسی ریاستی ادارے کی بالادستی درست تسلیم کر لی جاے تو پھر امریکی یا برطانوی افواج کی مداخلت کے خلاف کیا دلیل بچے گی۔ وہ قومیں ہم سے کہیں بہ تر ہے, اور جمہوریت کا یہ مندرجہ بالا سبق ہم نے انھی سے سیکھا ہے.

یہاں پادشاہی نظام ہوتا تو ہم آپ یہاں اپنے حقوق کی بحث نہ کرتے دکھائی دیتے; آئین ہی ہمارے حقوق کی ضمانت دیتا ہے, ورنہ یہ آئین کیا ہے. بادشاہ سلامت کی رعایا میں صرف شاہ کے حقوق ہوتے ہیں.

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran