اس دفعہ منتخب قومی سیاسی ٹیم کا کپتان کھلاڑی ہے


بچپن میں جب کرکٹ کھیلا کرتے تھے، تو چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑے بھی ہوجایا کرتے تھے، جو مل بیٹھ کر خود حل بھی کرلیا لیتے تھے- ایک دفعہ جھگڑا طول پکڑ گیا، تو ہم سب فاروقی صاحب کے پاس چلے گئے اور ان کو بڑا تسلیم کرتے ہوئے درخواست کی کہ آپ فیصلہ کریں، کون کپتان ہو اور کس کو پہلی باری ملے-

فاروقی صاحب سے مداخلت کی درخواست کھیل میں ان کے ذوق و شوق کو مد نظر رکھتے ہوئے کی تھی- درخواست سن کر فاروقی صاحب خوشی سے پھولے نہ سمائے- اور چھڑی گھماتے ہوئے، اپنے موٹے تازے بیٹے کو بلایا اور ہم سب سے کہا کہ سب سے پہلے تو اس کو ٹیم میں شامل کرو- محلے کی حفاظت بھی یہی کرتا ہے، جب ہی تم لوگ کرکٹ کھیل پاتے ہو- ٹیم کے معاملات میں مداخلت کی درخواست مہنگی پڑگئی- اب ہونے یہ لگا، فاروقی صاحب کا بیٹا اپنی مرضی سے کپتان بنوانے لگا اور جب کوئی کھلاڑی اپنی باری لے رہا ہوتا تو اپنے کسی دوست کو یکدم سے لے کر آجاتا اور کہتا کہ اس کو بھی باری دو- اب ہم سب مل کر بڑی مشکل سے اسے آئوٹ کرتے، تاکہ پھر سے ہماری باری آجائے-

قیام پاکستان کے بعد قائداعظم جو ٹیم بنا کر گئے تھے، اس سے بھی یہی غلطی ہوگئی اور اس ٹیم کے چند افراد نے خود کپتان بننے کے چکر میں ایسے مقتدر حلقوں سے سیاسی میدان میں مداخلت کی درخواست کی، جن کا سیاست سے دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا- ان کا کام عوام کی خدمت اور وطن عزیز کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت تھا-
اس وجہ سے ان مقتدر حلقوں نے براہ راست سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا اور خود بھی سیاست کے کپتان بن کر وطن عزیز میں 4 دفعہ کپتانی کی- جب یہ حلقے وطن عزیز کی کپتانی سے فارغ ہوتے تو اپنے کسی ہوتے سوتے یا دم بھرنے والے کو کپتانی سونپ جاتے- ان مقتدر حلقوں کی منشا کے بغیر کوئی سیاسی کھلاڑی وطن عزیز کا کپتان بننے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا-

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی میدان کے حقیقی کھلاڑی اور تماش بین سیاست سے متنفر ہوئے اور مقتدر حلقوں کے من چاہے کھلاڑی وطن عزیز میں ان حلقوں کی مرضی سے کپتانی کرنے لگے- جب کوئی کپتان اپنی مرضی چلانے کی کوشش کرتا، اس کو کپتانی سے علیحدہ کرکے دوسرے کو باری دے دی جاتی-

قیام پاکستان کے بعد سے لے کر اب تک یہی ہوتا آرہا ہے- لیکن اس دفعہ کپتانی ایسے فرد کو دی گئی ہے، جو سیاسی میدان کا کھلاڑی بننے سے پہلے کرکٹ کا کھلاڑی اور قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان رہ چکا ہے- محترم عمران خان کی ٹیم میں بھی بہت سے ایسے کھلاڑی ہیں، جو سابقہ دو بڑی ٹیموں کا کبھی نہ کبھی حصہ رہے ہیں-

محترم عمران خان صاحب نے قوم سے خطاب میں بہت سے خوش کن وعدے کیے ہیں- اقتدار کے حصول کے لیے بھی محترم عمران خان صاحب نے بہت سے خوش کن وعدے کیے تھے، جن پر وہ قائم نہ رہ سکے لیکن پھر بھی عوام نے ان پر بھروسہ کیا- اور بار بار باریاں لے کر عوام سے دوبارہ باری کا موقع مانگنے والوں کو وفاق میں عوام نے باری دینے سے انکار کر دیا- عام انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں نے حسب معمول دھاندلی کا نعرہ لگا دیا ہے- گو کہ دھاندلی کا الزام تحریک انصاف پر نہیں لگایا کیونکہ نگراں وزیر اعظم اور الیکشن کمیشن کا سربراہ سابقہ دو بڑی جماعتوں کی مرضی و منشاء سے ہی خدمات انجام دے رہے ہیں- 2013 کے عام انتخابات کے بعد بھی مسلم لیگ ( ن ) سمیت سب جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچایا تھا- لیکن اس دھاندلی کے خلاف 126 دن کا دھرنا تحریک انصاف نے دیا-اس دھرنے کے خلاف پیپلز پارٹی، اے این پی، جے یو آئی نے مسلم لیگ ( ن ) کی حکومت کا ساتھ دیا اور سب جماعتوں نے دھرنے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا-

دھاندلی کی شکایت کرنے والی جماعتوں کو چاہیے کہ جو مشورہ وہ تحریک انصاف کو دیتے تھے، اس پر خود بھی عمل کریں اور قانونی راستہ اپناتے ہوئے، دھاندلی کی شکایت متعلقہ اداروں سے کریں، تاکہ وطن عزیز میں سیاسی انتشار کی کیفیت پیدا نہ ہو- مزید یہ کہ تحریک انصاف کی کامیابی کو دل سے تسلیم کریں-

محترم عمران خان صاحب سابقہ کامیاب کھلاڑی اور کپتان ہیں- اور وہی کھلاڑی اور ٹیم کھیل کے میدان میں کامیاب ہوتی ہے، جو کھیل کے میدان میں کھیل پر توجہ دینے کے ساتھ اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرے- وطن عزیر کی موجودہ سیاسی صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ محترم عمران خان صاحب اپنی سیاسی و حکومتی ٹیم میرٹ پر منتخب کریں- ماضی میں جس طرح سیاست دان اپنے مفاد کی خاطر ایک دوسرے سے بذریعہ احتساب سیاسی انتقام لیتے آئے ہیں، اس سے اجتناب کریں- محترم عمران خان صاحب کو سیاسی اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا-

محترم عمران خان صاحب اور ان کی ٹیم، آئندہ پانچ سال میں وہ وعدے جو محترم عمران خان صاحب نے اپنے قوم سے غیر سرکاری خطاب میں کیے ہیں، پورے کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ بہت بڑی قومی خدمت ہوگی- صوبہ خیبر پختون خواہ کے عوام نے جس طرح بھرپور انداز میں دو تہائی اکثریت سے تحریک انصاف کو کامیاب کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے، کہ یقینا گزشتہ پانچ سال میں تحریک انصاف کی حکومت وہاں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئی ہے-

اس دفعہ وطن عزیز میں اقتدار کی باری ایک سابقہ کامیاب کھلاڑی اور کپتان کو ملی ہے- جو یقینا ایک بہت بڑی سیاسی تبدیلی ہے- دعا ہے کہ یہ تبدیلی وطن عزیز اور قوم کے حق میں بہتر ثابت ہو-


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).