تبدیلی کے رنگ اور روپ


تو اب یہ سمجھنا ہے کہ ہماری غیر حتمی اور غیر سرکاری زندگی میں ان انتخابات کے نتیجے میں کیا تبدیلی آئی ہے یا آسکتی ہے۔ یعنی یہ کہ ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے، کیا پایا ہے۔ کیونکہ عمران خان کی پہلی پہچان کرکٹ ہے اس لئے آپ اس عشق کو کھیل بھی سمجھ سکتے ہیں۔ اب پتہ نہیں عشق کی طرح کھیل میں بھی سب کچھ جائز ہے یا نہیں۔ البتہ کھیل کا نتیجہ منہ چڑھ کر بولتا ہے۔ سویہی ہوا ہے۔ یہ ماننا چاہیے کہ عمران خان کے لئے ایک لہر اٹھی اور جو کچھ وہ بہا لے گئی اسے ہم سیاست کے خس وخاک سے تعبیر کریں یا اسے ہم اونچے برج سمجھیں، یہ تجزیے کا معاملہ ہے۔ یہ بھی سمجھنے کی بات ہے کہ اس لہر کو کن ہواؤں نے اٹھایا۔ انتخابات کے دن اور نتائج کی نہ ختم ہونے والی رات سے پہلے کا موسم کئی ہفتوں بلکہ مہینوں سے غیر متوازن تھا۔

بیٹھے ہوں تو سیٹ بیلٹ باندھنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ اور اب کیا صورت حال ہے؟ ذرا سوچنے دیں کیونکہ بہت کچھ بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ خود عمران خان نے انتخابی فتح کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ایک بہت خوشگوار تبدیلی کا اشارہ دیا۔ انہوں نے اچھی باتیں کیں۔ اور یہ وہی عمران تھے کہ جو اپنے سیاسی جلسوں میں شیر کی طرح دھاڑتے تھے اور بلندیوں سے نیچے اتر کر دشنام کے زہر آلود تیر چلایا کرتے تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اب اس کہانی میں ان کا کردار بھی تبدیل ہوگیا ہے اور ان کی تقریر ایک نئے اسکرپٹ کا بہت امید افزا آغاز ہے۔

ہاں کئی مسائل فوری توجہ کے طالب ہیں۔ کئی سیاسی جماعتیں یہ سمجھ رہی ہیں کہ دھاندلی کی گئی ہے۔ انتخابات سے پہلے سب سے زیادہ بھروسہ الیکشن کمیشن پر کیا جاتا تھا۔ انتخابات کے دن وہ لڑ کھڑا گیا، وہ ایک دن جس کے لئے پانچ سال دفتروں میں حاضری لگتی ہے اور تنخواہیں وصول کی جاتی ہیں اور جس کے لئے دن گنے جاتے ہیں اس طرح اپنے راستے سے بھٹک گیا۔

عمران خان جس تبدیلی کا چہرہ بنے ہیں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ بدلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ قومی انتخابات سے توقع ہی یہ کی جاتی ہے کہ وہ کئی سوالوں کے جواب فراہم کریں گے اور کئی نئے سوال کھڑے کردیں گے۔ میرے پاس جن نئے سوالوں کی فہرست ہے وہ اتنی طویل ہے کہ اس کے پاؤں اس کالم کی چادر سے باہر نکلے رہیں گے۔ لیکن ابھی تو ایک تھکن کا احساس ہے۔ انتخابات کے رت جگے اس دفعہ غیر معمولی طور پر صبر آزما تھا۔ شب ہجر کی طوالت کا سا سماں تھا۔ سو ٹیلی وژن کی اسکرین کی روشنی ابھی تک آنکھوں میں لرزاں ہے اور ذہن میں تجزیہ کاروں کی آوازوں کاتلاطم بھی پوری طرح تھما نہیں ہے۔

ایسے میں اگر کوئی پوچھے کہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا کہ جو پاکستانی سیاست میں ایک نئی امید بن کر ابھی ابھی ابھرا ہے لیاری میں کیسے ہار گیا تو آپ کہیں گے کہ ٹھہرئیے، میں تو نواز شریف اور مریم نواز کے بارے میں سوچ رہا ہوں اور ان کے بیانیے کی باز گشت کی تلاش میں ہوں۔ لیکن ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی دیکھنا ہے کہ اتنے بڑے بڑے سیاسی رہنما کیسے چت ہوگئے۔ اور ہاں، کراچی میں کیا ہوا۔ ایم کیوایم کے قافلے نے اب کہاں پڑاؤ ڈالا ہے۔ اور مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی، وہ کہاں کھو گئی؟ یہی حال کئی ’ الیکٹ ایبلز‘ کا بھی ہوا۔ جس پارٹی کو انہوں نے چھوڑا، اس کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوا ہو، جس پارٹی میں وہ شامل ہوئے تھے اس کو کوئی خاص فائدہ نہ ہوا۔ شاید بندوبست بھی یہی تھا۔

اور پھر، چوہدری نثار بھی تو سامنے آکرکھڑے ہوگئے ہیں۔ ان کا کیاکریں؟ میرے خیال میں تو زیادہ توجہ کی مستحق وہ نئی مذہبی جماعتیں ہیں کہ جو پہلی بار قومی انتخابات میں شامل ہوئی ہیں۔ انہوں نے جماعت اسلامی جیسی منظم اور پاکستان کی تاریخ سے جڑی جماعت کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ کئی امیدواروں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں۔ یہ کیا ہورہا ہے؟ اس دفعہ سول سوسائٹی کے چند ترقی پسند اور سچ مچ کی سماجی تبدیلی کے علمبردار امیدوار بھی میدان میں اترے اور انہوں نے عوامی سطح پرلوگوں کو جگانے کی کوشش کی۔ تو کیا اس جدوجہد کی بارآوری کی اس معاشرے میں کوئی گنجائش موجود ہے؟

ظاہر ہے کہ پورے منظر کاجائزہ لینے کے لئے کچھ وقت درکار ہے۔ پہلے تویہ بھی سمجھنا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں یہی کچھ ہونا تھا اور یہ دیواروں پر لکھا انہوں نے پڑھ لیا تھا۔ کوئی شاید یہ کہے کہ دیواروں پر آپ نے جو پڑھا وہ ہم نے لکھا تھا۔ ان سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ اچھا، اب آپ کسی خالی دیوار پر کیا لکھنے والے ہیں۔ ویسے آنے والے دنوں کی پیش بینی سے زیادہ ضروری آج اور کل کا مشاہدہ ہے۔ عمران خان نے سادگی کے بارے میں جو بات کہی وہ دل کو لگتی ہے۔ وزیر اعظم کے گھر کی شان وشوکت کے بارے میں ان کے خیالات سے ہم سب اتفاق کریں گے۔

مجھے یاد ہے کہ ملک معراج خالد جب1996کے آخر میں نگراں وزیر اعظم بنے تو انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ایک ایسی محفل میں کیا کہ جہاں میں بھی موجود تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب پہلی بار انہوں نے وہ گھر دیکھا توان کے ہوش اڑ گئے۔ بلکہ وہ دہل سے گئے۔ پریشان ہوگئے۔ لیکن جناب، یہ صرف وزیراعظم ہاؤس یا کسی گورنر ہاؤس کے جاہ وجلال کی بات نہیں ہے۔ پورا اسلام آباد آپ سے کچھ کہہ رہا ہے۔ میرے ایک دوست تو اسلام آباد کو اس معاشرے کی خواہش مرگ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کی تعمیر کا آغاز مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے شروع ہوچکا تھا اور مشرقی پاکستان کے عوام کی سوچ پر ضرور اس کا کچھ اثر پڑا ہوگا۔

اصل مسئلہ ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقے کا وہ شاہانہ مزاج ہے کہ جس کا اظہار ہم روز دیکھتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ، بنی گالہ بھی تو اس کی ایک مثال ہے۔ یہ بڑے لوگ کس طرح اپنی زندگی گزارتے ہیں اس کا تصور بھی نچلے متوسط طبقے کے افراد نہیں کرسکتے۔ عمران خان خود کئی بار یورپ کی جمہوریتوں کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ اگر کوئی وزیر اعظم سائیکل پر اپنے دفتر جائے تو ہم اس کی تصویر دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہماری دنیا تو بالکل مختلف ہے۔ اور اس دنیا کو بدلنا ہی سیاست کا اصل مقصد ہوناچاہیے۔

مشکل یہ ہے کہ یہ عمل انتخابی نہیں، انقلابی ہی ہوسکتا ہے کہ چند ایسے اقدامات کہ جنہیں نمائشی بھی کہا جائے ہمارے اجتماعی کردار کو سنوارنے میں مدد دے سکیں۔ لیکن نظام کی تبدیلی ایک اور چڑیا کا نام ہے۔ عمران خان نے جو وعدےکیے ہیں۔ ان کے وفا ہونے سے بہت فرق پڑسکتا ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے کہا ہے کہ پورے ملک میں تعلیم کا ایک ہی نظام ہونا چاہیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کام کب اور کیسے کیا جاسکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).