بریانی اور قیمے والے نان سے محروم جرمن ووٹر


اتوار کا دن تھا، ستمبر کی چوبیس تاریخ تھی اور سال تھا دو ہزار سترہ۔ آٹھ کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والی دنیا کی چوتھی اور یورپ کی سب سے بڑی معیشت رکھنے والی جرمنی میں عام انتخابات کا دن تھا۔

ہفتے کی شب دیر تک جاگنے کی وجہ سے اتوار کو آنکھ دیر سے کھلی۔ نہا دھو کر تیار ہونے اور ناشتے سے فراغت کے بعد دل چاہا کہ باہر چل کر ذرا انتخابات کی گہما گہمی دیکھیں۔

اپنے علاقے کی گلیوں سے گزرتے وقت احساس ہوا کہ جیسے لوگوں کو انتخابات کا یا تو علم نہیں یا تو انہیں اس میں کسی قسم دلچسپی نہیں ہے۔ کسی پارٹی کا نہ تو پرچم نظر آیا اور نہ ہی کہیں کسی پارٹی کے ترانے سننے کو ملے۔

خدا خدا کرکے علاقے کے پولنگ اسٹیشن پہنچا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔ کسی پارٹی نے بھی ووٹروں کی رہنمائی کے لیے کسی بھی قسم کا کیمپ قائم نہیں کیا تھا اور نہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک پہنچانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام۔ بریانی اور قیمے والے نان بھی کہیں نظر نہیں آئے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے امیدواروں کی غربت اور ان کے الیکشن لڑنے کے بھونڈے طریقے پر رونا آیا۔ دل میں سوچا کہ فورا جاکر انہیں پاکستان میں رائج الیکشن لڑنے اور انتخابات جیتنے کے جدید طریقہ کار سے آگاہ کروں پھر یہ سوچ کر خاموش رہا کہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بننے کا کیا فائدہ ۔

جرمنی میں سیاسی جماعتیں انتخابی مہم زیادہ تر سڑکوں کے کنارے بل بورڈز، مخصوص پلے کارڈز اور پارٹی رہنماؤں کی تصاویر اور پارٹی مینیفیسٹو پر مبنی پینا فلیکسز آویزاں کرکے اور اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا پر اشتہارات کے ذریعے چلاتی ہیں۔تاہم بڑے بڑے شہروں میں مرکزی امیدوار چند ایک جلسوں کا اہتمام کرتے ہیں اور مقامی رہنما بھی اپنے علاقوں کے ووٹروں سے رابطہ قائم رکھتے ہیں۔

انتخابی عمل کے دوران سیاسی ہڑ بونگ اور ہلڑ بازی کا ایک بھی نمونہ دیکھنے کو نہیں ملا، سیاسی بالیدگی اور برداشت کا وہ مظاہرہ دیکھنے کو ملا کہ جس کا تصور خام خیالی سمجحا جاتا ہے. سیاسی رہنما مباحثوں کے دوران ایک دوسرے کی پارٹی پالیسیوں اور کارکردگی کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے مگر مباحثے کے بعد ایک دوسرے سے بغل گیر ہو کر خوش گپیوں میں محو ہو کر ایک ساتھ کافی پیتے پاۓ جاتے۔

جرمنی کی سیاسی تاریخ کی طرح اس کی سیاسی جماعتوں کا انتخابی مہم چلانے کا انداز بھی کافی نرالا ہے، عام انتخابات سے کچھ روز قبل میری رہائش کے شہر کے مرکز میں ایک شخص نے مجحے ہیلو کہا اور میری جانب ایک پیکٹ بڑھاتے ہوئے کہا کہ کیا آپ یہ تحفہ لینا پسند کریں گے، میں نے ہاں میں سرہلا دیا، اس شخص نے پیکٹ میری جانب بڑھایا اور شکریہ ادا کرکے آگے نکل گیا۔ کافی سوچ بچار کے بعد میں نے جب پیکٹ کھولا تو اس میں ایک عدد قلم، ایک کی چین اور حزب اقتدار کی جماعت سی ڈی یو کی انتخابی مہم پر مبنی ایک کتابچہ موجود تھا اس جماعت کی گذشتہ بارہ سال کی حکومتی کارکردگی اور مستقبل کا لائحہ عمل درج تھا. سیاسی جماعتیں اپنے علاقے کے ووٹروں سے رابطہ رکھنے کے لیے انتخابات سے قبل انہیں گھروں پر پارٹی منشور پر مشتمل کتابچے بھی ارسال کرتے ہیں۔

انتخابی مہم کی طرح انتخابی نتائج آنے کا طریقہ بھی متاثر کن تھا، ووٹ ڈالنے کا وقت شام پانچ بجے تک کا تھا. ووٹنگ کا وقت ختم ہوتے ہی اگلے چند منٹوں کے دوران غیر سرکاری طور پر ملک بھر میں پارٹیوں کو ڈالے گئے ووٹوں کی مجموعی تعداد کی شرح ٹیلی ویژن اسکرینز پر آنا شروع ہوگئی یوں چند ہی منٹوں کے دوران اس بات کا فیصلہ –یہ فیصلہ حتمی یا سرکاری نتائج آنے تک اندازوں پر مبنی سمجحا جاتا ہے مگر ہوتا قریب قریب ہی ہے– ہوگیا کہ اگلے پارلیمنٹ میں سب سے نشستیں کس جماعت کی ہوں گی۔

جرمنی میں ہر ووٹر ایک بیلٹ پیپر پر دو ووٹ ڈالتا ہے، ایک ووٹ کو اپنی پسندیدہ جماعت اور دوسرا ووٹ وہ اپنے حلقے میں انتخاب لڑنے والے امیدوار کو ڈالتا ہے، یہ دونوں ووٹ ایک ہی بیلٹ پیپر پر کراس کا نشان لگا کرکاسٹ کیے جاتے ہیں۔ رات دس بجے تک ملک میں انتخابی نتائج واضح ہوجاتے ہیں اور جیتنے والی جماعتیں پارٹیوں کا اہتمام کرتی ہیں، یہ پارٹیاں ہوٹلوں میں منعقد ہوتی ہیں جہاں وہ اپنی جیت کا جشن مناتی ہیں.

سیاسی جماعتیں نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرتی ہیں اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرکے جیتنے والی جماعتوں کو مبارکباد پیش کرتی ہیں، انتخابی مہم چلانے سے ووٹ ڈالنے تک کا سارا عمل اس قدر منظم ہوتا ہے کہ اس سے عام شہری کسی طور پر متاثر نہیں ہوتا۔ بلکہ یوں کہیے کہ عام افراد کو انتخابات کے ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا اور سارا عمل مکمل ہوجاتا ہے۔

چالیس ہزار ڈالر سے زائد فی کس آمدنی اور تین ہزار ٹریلین سے زائد حجم کی جی ڈی پی رکھنے والی جرمنی یورپی یونین کے بجٹ میں ستائیس فیصد حصّہ ڈالتی ہے، اس بنا پر اسے یورپی یونین میں وہی حیثیت حاصل ہے جو اقوام متحدہ میں امریکہ کو ہے، با الفاظ دیگر جرمنی سے بہتر تعلقات یورپی یونین سے بہترین تعلقات کا سبب بن سکتے ہیں، خواہ یہ تعلقات سیاسی سماجی اور معاشی نوعیت کے ہی کیوں نہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).