کیا پولنگ سٹاف نے دھاندلی کی؟


ایسے سوالات کے جواب کون دے سکتا ہے؟ انتخابی عملہ۔ انتخابی عملہ تقریباً اساتذہ پر مشتمل تھا۔ مجھے بھی طبقہ اساتذہ میں شامل ہونے کا اعزاز ہے۔ 31 سال سروس ہوچکی ہے۔ ہر الیکشن میں ڈیوٹی کی ہے۔ جب سکول سائیڈ پر تھا تو اے پی او اور 1997 سے کالج سائیڈ پر پریزائیڈنگ کے طور پر۔ دو بار ماسٹر ٹرینر کے طورپر کام کیا ہے۔ گزشتہ الیکشن اور اس بار پولنگ سٹاف کو ٹریننگ دی۔ دونوں دفعہ تین تین دن کی ٹریننگ لی بھی۔ تھوڑی سی تفصیل اس لیے بتائی ہے کہ پڑھنے والوں کو اندازہ ہو سکے کہ کوئی نیا بندہ نہیں ہوں۔ مجھے کسی سے کچھ لینا دینا نہیں مگر اساتذہ کی غیر جانب داری اور ایمانداری پر انگشت نمائی ہورہی ہو تو خاموش نہیں رہ سکتا۔

عزت مآب اساتذہ کے علاوہ مختلف محکموں کے ذی وقار اہل کاروں نے شدید گرمی اور سانس دوبھر کر دینے والی حبس میں ٹریننگ لی۔ دو دو دن کی ٹریننگ دی گئی اس بار۔ ایک ایک بات سکھائی گئی۔ عملی مشقیں ہوئیں۔ پھر پریزائیڈنگ صاحبان نے آر او کے دفتر سے خود آرڈر وصول کیے۔ اپنے عملہ کو آرڈر دیے۔ آر۔ او دفتر سے مسلسل رابطہ رہا۔ موبائل بند رکھنے سے منع کیا گیا اور آر او آفس سے آنے والی کال کو فورا‘ اٹنڈ کرنے کے احکامات کی وجہ سے ہر وقت الرٹ رہے۔ اسٹیشن یعنی اپنا علاقہ نہ چھوڑنے کا حکم ہوا تھا، کئی شادی غمیاں چھوڑ دیں۔ ایک دن حلف اٹھانے گئے۔ باقاعدہ حلف اٹھایا۔ زبانی بھی تحریری بھی۔ ایمانداری غیرجانبداری اور شفافیت کا حلف۔ فرض شناسی کی قسم سامان وصول کرنے کے لیے پسینے میں شرابور مختلف کاونٹرز پر قطاروں میں لگے رہے۔ دوپہر سہ پہر اپنے اپنے پولنگ اسٹیشن پہنچے۔

اکثر اس دن کا کھانا بھی نہ کھا سکے۔ رات گئے تک انتظامات کرتے رہے۔ سارا دن چخ چخ سنتے رہے۔ بے سروپا اعتراضات کو بھی مہر آمیز طریقے سے نمٹاتے رہے۔ رات گئے تک بلکہ کئی تو 26 کی صبح تک مختلف کاونٹرز پر سامان اور رزلٹ جمع کرانے کے لیے خوار ہوتے رہے۔ یہ سب کچھ چند ہزار روپوں کے لیے تھا؟ ہرگز نہیں۔ اس بنیادی تصور کو سمجھ لینے کے بعد اب آتے ہیں سوالات کی طرف۔ انتخابی عملہ نے ہرگز ہرگز دھاندلی نہیں کی۔ ہر بوتھ پر ہر امیدوار کا ایک ایجنٹ بیٹھتا ہے۔ اگر کسی پولنگ اسٹیشن پر چار بوتھ ہوں تو چار ایجنٹ ہوں گے۔ قاعدہ یہ ہے کہ گنتی کے وقت ہر امیدوار کا ایک ایک ایجنٹ بیٹھے۔ یہ صوابدید بھی ایجنٹس کی ہے کہ دو تین یا چار میں سے کس نے بیٹھنا ہے۔ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا، اس سے مراد یہ ہے کہ ہر امیدوار کا ایک ایجنٹ گنتی کے وقت کمرے میں گنتی کے عمل کو بغور دیکھنے کے لیے بیٹھے گا اور باقی باہر تشریف لے جائیں گے۔ منطقی اعتبار سے بھی یہ بالکل درست ہے۔ اگر دس امیدوار ہوں اور چار بوتھ ہوں تو گنتی والے کمرے میں چالیس ایجنٹس ہو جائیں گے۔ ایک ایک ایجنٹ ہو تو دس۔

اب آ جائیں فارم 45 کی طرف۔ ہم نے پوری ٹریننگ میں اس پر سب سے زیادہ فوکس کیا ہے۔ بار بار گنتی کرنے کے بعد اسے پر کیا جاتا ہے۔ اس فارم کے اندر کاربن ہوتا ہے۔ اگر اس کی بیس کاپیاں تیار کرنی ہوں تو پانچ سیٹ الگ الگ تیار کرنا پڑتے ہیں کیونکہ چار فارمز کے بعد نیچے والے فارمز تک لکھائی واضع نہیں ہوتی۔ اگر امیدوار 8 سے زیادہ ہوں تو پھر ہر فارم دو صفحات پر مشتمل ہو جاتا ہے۔ اس طرح کام کو مزید ڈبل کر لیں۔ قومی اسمبلی کے بعد صوبائی اسمبلی کا کام اسی طرح سے کیا جاتا ہے۔ سارا دن ہنگامہ خیز اور شدید اضمحلال و ضطراب اوپر سے شدید گرمی۔ تھکاوٹ۔ فارم پر کرتے دیر ہو جاتی ہے۔ ایجنٹس تعجیل اور عجلت کا شکار ہوتے ہیں۔ کمرے کو کنڈی اس لیے لگائی جاتی ہے کہ وہ باہر جا کر رزلٹ بتا دیتے ہیں اور ڈھول ڈھمکے نعرے شروع ہو جاتے ہیں۔ کام کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ فارم تیار کر کے ہر امیدوار کے ایک ایک ایجنٹ کو دیا جاتا ہے جو اس وقت وہاں موجود ہوتے ہیں۔

تین تین فارم ٹیمپر ایویڈنٹ بیگز میں ڈال کر آر او اور الیکشن کمیشن کے نمائندوں کو دیے جاتے ہیں اور بیگز میں ڈال کر بیگ کو الگ سے سیل کیا جاتا ہے۔ اس میں تبدیلی کا امکان صفر ہے۔ اس دفعہ الیکشن کمیشن کے انتظامات نے دھاندلی کے ہر امکان کا دروازہ بند کر دیا تھا۔ فوج کی موجودگی اس عمل کی شفافیت غیر جانب داری اور ایمانداری کی بہترین ضامن تھی۔ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اور ہماری حفاظت کے لیے آرمی کا ہونا بہت معاون رہا۔ پاکستان کے باشعور لوگو! ہم معماران قوم ہیں۔ ہم نے اپنی اپنی نظریاتی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ کے پوری ایمانداری سے انتخابی عمل کے اس اہم فریضے کو انجام دیا ہے۔ اس کے باوجود اگر یہ کہا جائے اور میرے عزت مآب رفقائے کار اور میرے ٹرینیز پر انگلی اٹھائی جائے تو مجھے شدید دکھ ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).