کیا شہباز شریف واقعی اپوزیشن میں بیٹھنے جا رہے ہیں؟


لگتا تو یہی ہے کہ شہباز شریف تحریک انصاف کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اپوزیشن میں بیٹھنے کی بیان بازی کر رہے ہیں۔ لیکن درپردہ وہ وزارت عظمی کے خواب آنکھوں میں سجاتے ہوئے اک آخری ناکام کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ وزارت عظمی کے حصول کے لئے آخری حد تک جائیں گے۔ اسی لئے تو انھوں نے مولانا فضل الرحمن کے حلف نہ لینے کی بات پہ غور و خوض کے لئے وقت مانگ لیا۔ لیکن حقیقت میں وہ حلف نہ اٹھانے کے حوالے سے بالکل بھی سنجیدہ نہیں۔ اب اللہ بہتر جانتا ہے۔ کہ کیا مولانا صاحب بھی درپردہ ان کوششوں میں ان کے ساتھ شریک ہیں یا نہیں؟ اور کیا وہ بھی اس بیان کی آڑ میں جوڑ تو ڑ کے لئے مہلت کی تلاش میں ہیں۔

حلف نہ لینے کے غبارے سے یقینا ہوا نکلتی جا رہی ہے۔ سب سے پہلے پیپلز پارٹی نے اے پی سی میں شرکت سے معذرت کر لی۔ پھر ایم کیو ایم کی شرکت تضاد کا شکار ہوئی۔ پھر خادم اعلی نے اسے گمبھیر تصور کرتے ہوئے وقت مانگ لیا۔ رہ گئے محمود خان اچکزئی جو خود اور ان کی پارٹی حلف لینے سے مبرا ہیں۔ اسفندیار ولی خود مبرا تاہم پارٹی کی ایک سیٹ ہے۔ اگر واقعی مولانا فضل الرحمن، سراج الحق اور اسفند یار ولی خان اپنے موقف کے حوالے سے مخلص اور سنجیدہ ہیں تو وہ یوٹرن کی بجائے اپنے موقف پہ قائم رہیں گے۔ کیوں کہ حلف نہ اٹھانے کے حوالے سے یہی تینوں شخصیات میدان میں اکیلے رہ جائیں گی۔ ویسے حلف نہ اٹھانے کے حوالے سے کوئی امید رکھنا دیوانے کا خواب نظر آتا ہے۔

شہباز شریف کے لئے وزارت اعظمی ایک اوبسیسشن (جنون) کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اور اس جنون میں وہ بڑے میاں صاحب اور مریم نواز تک کو بھول گئے۔ خادم اعلی کے جنون ختم ہونے اور وزارت اعظمی کی امید کے مستقبل میں ماند پڑنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ وہ عمران خان کے ممکنہ وزارت اعظمی کے حلف لینے کے بعد بھی ہر اس موقع کی تاک میں رہیں گے۔ کہ کسی طرح عمران خان کو وزارت اعظمی کے تخت سے اٹھا کر خود براجمان ہوا جائے۔ خادم اعلی کی وزارت اعظمی کے لئے اتنی تگ ودو یقینا قابل ستائش امر ہے۔ لیکن اسے وقت کی ستم ظریفی سمجھیے یا ان کی کمزور پوزیشن کہ فی الحال ان کی امیدوں کے بر آنے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).