نیا پاکستان، پرانے کاریگر اور روحانی خاتونِ اوّل


شہباز شریف کی مصلحت کوشی کسی کام نہ آئی۔ الیکشن میں عددی برتری حاصل کرنے کا خواب دیکھنے کی بجائے اگر وہ نوازشریف کے مزاحمتی بیانیے کا ساتھ دیتے تو شاید اپنی پارٹی کی عزّت کسی حد تک بچا پاتے۔ مرکز میں حکومت بنانا تو دور کی بات ہے، اب تو پنجاب کی صوبائی حکومت بھی ہاتھ سے جاتی نظر آتی ہے۔ نواز شریف اب بادشاہ گروں کے کسی کام کے نہیں رہے۔ ان کا پاکستان آ کر گرفتاری پیش کرنا بھی اکارت گیا۔ اب تو وہ جیل سے چھٹکارا پانے کی سبیل ڈھونتے ہوں گے۔ ادھر الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواستیں تقریباً سب سیاسی جماعتوں کی جانب سے موصول ہو رہی ہیں۔

اچھی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی الیکشن کی شفافیت سے متعلق تحفظات کے باوجود جمہوری عمل کو برقرار رکھنے پر متفق ہیں۔ الیکشن کے نتائج متنازعہ سہی، مگر مثبت پہلو یہ ہے کہ عوام نے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کو مسترد کر دیا۔ تحریکِ انصاف کے ووٹرز کی خوشی دیدنی ہے۔ سالوں سے عمران خان اور تحریکِ انصاف کی مدح سرائی کرنے والے اینکرز اور تجزیہ نگار خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ عمران خان صاحب کی الیکشن کے بعد کی گئی تقریر کی خوب پذیرائی ہوئی ہے۔

چائنا ماڈل پر تعمیر کردہ مدینہ کی فلاحی ریاست یقیناً دیکھنے کی چیز ہو گی۔ چین خوش ہے اور امریکہ ناراض۔ امریکہ کی انڈیا سے قربت کے بعد پاکستان اور امریکہ کے بیچ بڑھتے فاصلوں اور روس چین بلاک کی جانب التفات کے نتیجے میں سیاسی سطح پر ایسی تبدیلی اظہر من الشمس تھی۔ تحریکِ انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے چینی زبان میں پہلا ٹویٹ بھی جاری کردیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر تعلقات باہمی مفادات کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں۔ دیکھیے پاکستان کے لیے یہ تبدیلی کس حد تک سود مند ثابت ہوتی ہے۔

مگر اس الیکشن سے قبل کے عرصے میں ہماری عوامی وکیبلری میں دو اصطلاحات کا اضافہ ہوا۔ پولیٹیکل انجینئرنگ، یعنی ایسی دھاندلی جو کہ ہوتی ہے مگر نہیں ہوتی۔ اور ہائبرڈ وار، یعنی ایسی جنگ جو کہ نہیں ہوتی مگر پھر بھی ہوتی ہے۔ آنے والی حکومت طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی شہرت کی حامل ہے۔ یعنی ہمارے سٹریٹیجک اثاثے بھی اب ایٹمی اثاثوں کی مانند محفوظ ہاتھوں میں ہوں گے۔ مگردیکھیے کہ یہ پاک ایران سرحد پر مضبوط ہوتی داعش کے مقابلے میں ہمارے کس حد تک مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

نئی حکومت کے قیام کے لیے جوڑ توڑ جاری ہے۔ حکومت بنانے کے لیے آزاد اراکین اور چھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تحریکِ انصاف کو کچھ وزارتیں اور عہدے بھی قربان کرنا پڑیں گے۔ جہانگیر ترین کا طیارہ ایک بار پھر کارآمد ثابت ہو رہا ہے۔ جہانگیر ترین اور شاہ محمود کے درمیان اختلافات بھی اس دوران مزید کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔ معاشی بحران سے نمٹنا نئی حکومت کی اوّلین ترجیح ہو گی۔ اور یقیناً یہ چیلنج تحریکِ انصاف کی حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ثابت ہو گا۔ وعدوں اور دعووں کی فراونی، بہترین پالیسی سازی اور اس پر عمل سےمتعلق سنجیدہ کوششوں کی متقاضی ہے۔ دوسری جانب عمران خان کے اردگرد کرپٹ روایتی سیاست دانوں کی موجودگی کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے دعوے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں حائل نظر آتی ہے۔

ایک کالم نگار کا یہ دعویٰ نظر سے گزرا ہے کہ عمران خان کی کامیابی ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے وظائف کا ثمر ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کا ہے کہ خان صاحب کے ایک انتخابی جلسے میں ان کے قتل کے لیے سات شوٹرز موجود تھے جن میں سے چار افغانی اور تین پاکستانی تھے۔ مگر بشریٰ بی بی کے وظائف کی بدولت وہ عمران خان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ ہمارے لیے کس قدر اعزاز کی بات ہے کہ ایک ایسی روحانی ہستی ہمارے ملک کی خاتون اوّل بننے جا رہی ہے۔

امکان غالب ہے کہ ہمارے بہت سے قومی مسائل کا حل تو ان وظائف سے ذریعے ہی نکل آئے گا۔ بلکہ امید کرتے ہیں کہ غیر ملکی دوروں کے دوران بشریٰ بی بی اپنے جملہ موءکلین کی فوجِ ظفر موج کے ساتھ کپتان کے ہمراہ ہوں گی جس کی موجودگی غیر ملکی سربراہان کو اپنے قابو لا کر ان کو پاکستان دوست ایجنڈا اختیار کرنے پر مجبور کر دے گی۔ ویسے بھی ملکی حالات جس نہج پر ہیں، ان کا کسی روحانی امداد کے بغیر بہتر ہونا بعید از قیاس ہے۔

آزاد اراکین اور اتحادیوں کی بیساکھیوں پر قائم اس نئی حکومت کو مسائل کا انبار اور ایک مضبوط اپوزیشن تحفے میں ملے گی۔ نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے پرانےکاریگر ہی دستیاب ہیں۔ دعا ہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کے اقدامات ملک اور عوام کی بہتری کا باعث بنیں۔ ان کے ووٹرز نے ابھی سے بہت سارے خواب آنکھوں میں سجا لیے ہیں۔ خوابوں تعبیر کا حاصل نہ ہو پانا سیاسی عمل پر سے ان کے یقین کے متزلزل ہونے کا باعث ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).