کون بنے گا خیبر پختونخوا کا وزیر اعلٰی


ویسے اس تحریر کا عنوان ”کون بنے گا ارب پتی“ بھی ہوسکتا ہے۔ وزیراعلی بننا کروڑ پتی تو کیا ارب پتی بننے کی کنجی ہے۔ ہمارے درویش وزیراعلی (سابقہ) جلسوں میں کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ ان کے پاس نہ ذاتی گھر ہے اور نہ گاڑی، یہ الگ بات کہ الیکشن مہم کے دوران ان کے ورکرز نے نوٹ سے ووٹ حاصل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور یوں اپنے لیڈرز کی اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کردی کہ لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔ ویسے مہر تصدیق تو ان کے لیڈر کی اس بات پر بھی ثبت ہوئی جو اس نے نے ووٹ خریدنے والوں کے متعلق جلسہ عام میں کہی۔ بات دوسری طرف نکل جائے گی لیکن الیکشن ڈے پر ان گنہگار آنکھوں سے سرِ عام ووٹ کو عزت دینے کے وہ مناظر دیکھے کہ چودہ طبق روشن ہوگئے۔

تین مہینوں کی محنت سے جب کچھ ہاتھ نہ آسکا تو آخری ہفتے بوریوں کے منہ کھول دیے گئے اور سارے سودے گھروں پر بہ خیر و خوبی انجام پا گئے۔ جو لوگ بچ گئے تھے، الیکشن ڈے پر راستوں میں سوداگر کھڑے کرکے سودا کیا گیا۔ ووٹ کی ’عزت‘ کی قیمت پانچ سو سے پانچ ہزار تک قرار پائی۔ بہتی گنگا میں بہت سوں نے ہاتھ دھوئے۔

کل رات دیر سے گھر پہنچا تو بیوی نے بتایا کہ عشاء کی نماز کے بعد ایک بارہ سالہ لڑکی آئی اور آتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میری بیوی حیران و پریشان دلاسہ دیتی رہی لیکن بچی کے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ بالآخر ہچکیوں میں کہنے لگی کہ اس کی ماں بیمار ہے اور ڈاکٹر کی فیس اور دوائیوں کے پیسے نہ ہونے کے کارن گھر پر پڑی ہے۔ گھر میں ہزار روپے پڑے تھے، وہ اس کو دیے تو تھمے ہوئے آنسو پھر جاری ہوگئے۔ ہزار روپے کا نوٹ ہاتھ میں لئے بار بار شکریہ شکریہ کہتے چلی گئی۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ طاقت اور اختیار حاصل کرنے کے لئے ہم پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں لیکن کسی غریب کی مدد کے لئے ہمارے جیب اور ہاتھ ہمیشہ خالی ہوتے ہیں۔

ویسے اگر آپ ایک سیاسی جماعت کے کسی جوان سے بحث کرنے کی غلطی کریں تو وہ بے دھڑک کہہ دیں گے کہ ووٹ خریدنے سے عوام کا بھلا ہی ہوا کہ غریبوں کو دوا دارو کے پیسے مل گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ووٹ کو نوٹ سے عزت دلوانی والی جماعت کے نوجوان سپورٹرز ووٹ خریدنے کا انکار نہیں کررہے بلکہ دوسری جماعتوں کو طعنے دے رہے ہیں کہ نہ ان کے لوگ بکتے اور نہ وہ خریدتے۔ ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ قال اللہ و قال رسول اللہ کہنے والی جماعت کے ووٹرز بھی نہایت سہولت سے بکے؛ قائدین کی تقلید بہرحال لازم ہوتی ہے۔

اچھا تو وزیراعلی کون بننے جارہا ہے؟ تین نام لئے جارہے ہیں۔ ایک تو سابقہ وزیراعلی پرویز خٹک، دوسرا مردان سے تعلق رکھنے والے عاطف خان اور تیسرا سابقہ سپیکر اسد قیصر۔ ان کے چاہنے والے مجھے معاف کریں لیکن تبدیلی کی بنیاد رکھنے والے پختون عوام ان سے بہتر کے مستحق ہیں۔ تینوں اس بارِ گراں کو کندھا دینے کے لئے اتاؤلے ہوئے جارہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس منصب کا اہل نہیں۔

پرویز خٹک کو جب سے ہوش سنبھالا ہے، دیکھتا آرہا ہوں۔ حقیقت میں انتخابی سیاست کے ماہر ہیں اور ہر قیمت پر اسمبلی پہنچنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ جنرل ضیاء کے دور میں سیاست کا آغاز کیا اور پیلپز پارٹی، جنرل مشرف، آفتاب شیرپاؤ، دوبارہ پیپلز پارٹی اور بالآخر تحریک انصاف کی چھتری پر آ بیٹھنے والے پرویز خٹک کی سوچ یونین کونسل لیول سے اوپر نہ اٹھ سکی۔ حالیہ انتخابی مہم میں جو زبان استعمال کرتے ہوئے پائے گئے، دوبارہ وزیراعلی کے منصب کے لئے کسی طور موزوں نہیں ہو سکتے۔ بی آر ٹی اور بلین ٹری سونامی پراجیکٹ میں خٹک صاحب پر اٹھنے والے اعتراضات اور الزامات کے باوجود وزیراعلی کا منصب خٹک کی جھولی میں ڈالنا اس بات کا ثبوت ہوگا کہ تحریک انصاف بھی ایک روایتی سیاسی جماعت سے زیادہ کچھ نہیں۔

اسد قیصر کو پاکستان تحریکِ انصاف میں لانے کی تگ و دو میں تھوڑا سا حصہ اس ناچیز کا بھی ہے۔ تحریک انصاف کے ایک دیرینہ کارکن ریاست سرحدی ہوا کرتے تھے۔ آج کل کہیں نظر نہیں آرہے لیکن گمان غالب ہے کہ کہیں بیٹھے اپنی حسرتوں پر آنسو بہا رہے ہوں گے۔ ایک ٹانگ سے معزوری کے باوجود بلا کے متحرک تھے۔ ان دنوں جب پرویز خٹک جیسے سیاستدان تحریک انصاف کو کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں تھے، ریاست سرحدی ڈھونڈ ڈھونڈ کر لوگ تحریک انصاف میں شامل کراتے تھے۔ ناچیز سے مشورہ کیا کرتے تھے۔

اسد قیصر کو تحریک انصاف میں شامل کرنے کا سہرا بھی ریاست سرحدی کے سر ہے۔ ان دنوں کسی لیڈر کی تحریک انصاف میں شمولیت کے لئے دو چیزیں کافی سمجھی جاتی تھی؛ ایک یہ کہ تھوڑا بہت پیسے والا ہو اور دوسرا یہ کہ پیسہ خرچ کرنے کے لئے اس قدر تیار ہو کہ خان صاحب کے لئے قابلِ قبول حجم والا کوئی جلسہ کر سکے اور ایسا کرنے پر اور لوگوں کو قائل کر سکے۔ وزارت اعلی کے لئے درکار تحرک، فراست اور تدبر اسد قیصر میں بالکل نہیں پائی جاتی۔ بطور سپیکر کے پی کے اسمبلی کارکردگی کسی طور متاثر کن نہیں تھی، ، کرپشن کے الزامات سے دامن نہ بچا سکے۔

عاطف خان قبول صورت ہیں اور نوجوان انہیں پسند بھی کرتے ہیں۔ ایک کانفرنس میں ملاقات ہوئی۔ تکبر شخصیت میں نمایاں نظر آیا۔ ہیلی کاپٹر کے سفر کے بہت شوقین ہیں، ان کا بس چلے تو کارنر میٹنگز کے لئے بھی ہیلی کاپٹر کا استعمال کریں۔ دباؤ برداشت نہیں کر سکتے اور معمولی تنقید سن کر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ اسمبلی اجلاس کے دوران اپنے ایک کولیگ کے ساتھ ہاتھاپائی کے لئے یوں اچھلتے کودتے پائے گئے کہ اگر اجلاس میں موجود اراکین انہیں قابو نہ کرتے تو اسے چیڑ پھاڑ کر رکھ دیتے۔ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہوگئی تھی۔ عاطف خان صاحب کا پارہ ایک گھنٹے کی کوشش کے باوجود اتر نہ سکا اور بالآخر وزیراعلی کو اجلاس سے اٹھ کر جانا پڑا، اجلاس کچھ اس طرح ختم ہوا کہ سپیکر صاحب اعلان بھی نہ کرسکے۔ ایسےجذباتی آدمی کا وزیراعلی بننا کسی طور ملک اور قوم بالخصوص پختونوں کے لئے بہتر نہیں ہوگا۔

اب وزیراعلی کسے بنایا جائے؟ میرے خیال میں خان صاحب کو وزارت اعلی کے خواہشمندوں سے درخواستیں طلب کرنی چاہئیں جن میں وہ واضح طور پر بتائیں کہ وہ وزیراعلی کیوں بننا چاہتے ہیں اور ان کے پاس اس حوالے سے کیا پروگرام ہے؟ ان کی ترجیحات کیا ہیں اور وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کیا طریقہ کار اپنائیں گے۔ کوئی پڑھا لکھا صاحبِ نظر نوجوان مل جائے گا ستر کے قریب لوگوں میں۔ نہ ملے تو کسی کو ممبر صوبائی اسمبلی بنا کر وزیراعلی بنا دیں کہ وزیراعظم بننے کے لئے جہاں اتنے الیکٹیبلز پارٹی میں شامل کیے وہاں ایک کام کے بندے کو بھی جگہ دے دیں۔ مجھے معلوم ہے خان صاحب اتنے جھنجٹ میں نہیں پڑیں گے، پرویز خٹک ہی اگلے وزیراعلی ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).