اتنا غصہ کیوں؟


جمہوریت کیا ہے،نہ کسی نے جاننے کی زحمت کی،نہ بتانے کی ضرورت محسوس کی۔ دوسرے کی رائے کا احترام کرنا بنیادی جزو قرار پایا۔

سیاست میں اور بہت کچھ آگیا مگر جمہوری قدریں بتدریج رخصت ہورہی ہیں۔ سیاسی کارکنوں کا ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی بھی جمہوریت کا حصہ ہے۔ اس سے آگے لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ، ذاتی حملے، بہتان، یہ سب بھی سیاست میں آچکے ہیں۔ الیکشن کے دوران ایسی تمام سرگرمیاں پارٹی قیادت کے کنٹرول کرنے پر رُک جاتی تھیں ۔

کبھی مخالف کو زچ کرنے کیلئے کارکنوں کی خاموشی سے حوصلہ افزائی کردی جاتی تھی۔ سیاست میں تحمل، برداشت اور مخالف کو کسی حد تک سننے کی روایت بھی رہی ہے۔ یہ سب معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی کا نتیجہ ہے کہ اب سیاسی کارکن تو شاید اتنے نہیں رہے، پارٹیوں کے ہمدرد اور ووٹرز سوشل میڈیا پر آکر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں۔

اظہار رائے کی آزادی بھی شاید اس کا تقاضا نہیں کرتی،جیسا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پڑھنے اور دیکھنے میں آتا ہے۔ بات گالم گلوچ اور ذاتی حملوں سے بھی کہیں آگے نظر آتی ہے۔ نہ جانے یہ جمہوریت کا حسن ہے یا قبیح چہرہ۔ کون جانے ہم  نے اس کو کیوں قبول کر لیا۔ مکالمہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے، کوئی کسی کی دلیل پر قائل نہ ہونے پر غلیظ کمنٹس کرنے پر آ جاتا ہے۔ تمام اخلاقی حدیں پہلے قدم میں ہی عبور ہو جاتی ہیں۔

بس ایک چیز صاف دکھائی دیتی ہے، ذاتی تسکین کیلئے پوسٹ کی جاتی ہے، دوسرے پسند کریں یا ہاں میں ہاں ملائیں تو ٹھیک، مخالفت یا اعتراض کرنے پر غصہ سامنے آجاتا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے بات بہت سادہ پیرائے میں ہوتی ہے وہ کہیں کی کہیں نکل جاتی ہے۔

ایسے مکالموں میں نہ کوئی بڑا ہوتا ہے اور نہ کوئی موڈریٹر جسے درمیان میں صورتحال کو نارمل کرنے یا مکالمے کو پٹڑی پر لانے کو موقع ملے۔ سوشل میڈیا پر بات اور آگے نکل جاتی ہے کچھ ایسی تصاویر اور وڈیوز اپ لوڈ کردی جاتی ہیں، جس میں دوسروں کی تضحیک اور محض تفنن طبع کی خاطر کچھ بھی لکھ کر وڈیو پوسٹ کی جاتی ہے۔

حالیہ الیکشن کے دوران یہ پریکٹس بہت شدومد سے دکھائی دی۔ پڑھے لکھے اور سلجھے افراد بھی کہیں اس عمل میں شریک دکھائی دیئے۔ سیاسی رہنماؤں کی زبان بھی کافی حد تک شائستگی کی دوسری حد کو چھوتی رہی، مخالفین پر حملے کرتے کوئی لحاظ نہ رکھا گیا۔ سیاسی یا نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن دوسرے کی رائے کا بالکل احترام نہ کرنا، یہ طے شدہ حقیقت تصور کی گئی ہے۔

عدم برداشت کا یہ اظہار بلکہ غصہ سماجی رابطوں سے نکل کر آمنے سامنے بھی شدت اختیار کرتا رہا۔ کہیں سیاسی رہنماؤں کو مختلف ناموں سے پکارا گیا، یا انہیں القابات بخش دیئے گئے۔ الیکشن کے بعد نتائج آئے، جیتنے والے کچھ خوش ہوئے اور فطری طور پر ان کے جذبات کچھ ٹھنڈے ہیں، لیکن ہارنے والے بے قابو ہیں۔

بنوں میں ایک امیدوار نے شکست پر غصے میں مخالف پارٹی کا پرچم کتے پر لپیٹ کر اسے گولی ماردی۔ یہ واقعہ کیا بتاتا ہے عدم برداشت یعنی اس کے بس میں نہیں کہ جیتنے والے یا اس کے لیڈر کو ہی جان سے مار دے۔

ہم لوگ کہاں کھڑے ہیں، یہ کسی ایک جماعت کی بات نہیں، اسی جیتنے والی جماعت کے کارکنوں نے کراچی میں ایک گدھے کو تشدد کرکے لہولہان کردیا تھا۔ محض ایک بیان پر طول پکڑنے والی بحث پر غصہ کرنے کے بعد۔ ہے کوئی ہمیں سمجھائے، جس کی بات پر عمل کرسکیں، شاید ہم سب سمجھ دار ہیں، اور اپنے موقف کو بیان کرنے اور کبھی کبھار اس کے عملی اظہار کا بھی حق رکھتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہمارا بنیادی حق ہے۔ حق کی بات ہمیں خوب معلوم ہے، فرض شاید میں بھی بھول جاتا ہوں

کہ کیا مجھے اپنی گفتگو میں توازن رکھنا چاہیے، کسی کی حمایت کا یہ مطلب ہے کہ دوسرے فریق کی کا احترام بھول جاؤں۔
ریاستی اداروں کو شاید کوئی دلچسپی بھی نہیں کہ معاشرے میں جمہوری کلچر فروغ پائے، عدم رواداری کی حوصلہ شکنی ہو، یہ کام سول سوسائٹی سے بھی زیادہ سیاسی جماعتوں کا ہے جنہیں شاید اپنے ووٹوں، جیت،اقتدار اور دوسرے اہم قومی معاملات سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ یہ غصہ درحقیقت سیاسی قیادت کے اندر بھی بھرا پڑا ہے، جس کا مظاہرہ وہ اکثر کرتی رہتے ہیں، یہی آگے عوام میں منتقل ہوجاتا ہے۔

اس سوال کا جواب ہمیں خود ہی تلاش کرنا ہوگا کہ آخر اتنا غصہ کیوں؟

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar